Bayan-ul-Quran - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
اے ایمان والو ! تم پر بھی روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے جیسے کہ فرض کیا گیا تھا تم سے پہلوں پر تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہوجائے۔
سورة البقرۃ کے نصف آخر کے مضامین کے بارے میں عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ چار لڑیوں کی مانند ہیں جو آپس میں گتھی ہوئی ہیں۔ اب ان میں سے عبادات والی لڑی آرہی ہے اور زیر مطالعہ رکوع میں صوم کی عبادت کا تذکرہ ہے۔ جہاں تک صلوٰۃ نماز کا تعلق ہے تو اس کا ذکر مکی سورتوں میں بےتحاشا آیا ہے ‘ لیکن مکی دور میں صوم کا بطور عبادت کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ عربوں کے ہاں صوم یا صیام کے لفظ کا اطلاق اور مفہوم کیا تھا اور اس سے وہ کیا مراد لیتے تھے ‘ اسے ذراسمجھ لیجیے ! عرب خود تو روزہ نہیں رکھتے تھے ‘ البتہ اپنے گھوڑوں کو رکھواتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اکثر عربوں کا پیشہ غارت گری اور لوٹ مار تھا۔ پھر مختلف قبائل کے مابین وقفہ وقفہ سے جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ ان کاموں کے لیے ان کو گھوڑوں کی ضرورت تھی اور گھوڑا اس مقصد کے لیے نہایت موزوں جانور تھا کہ اس پر بیٹھ کر تیزی سے جائیں ‘ لوٹ مار کریں ‘ شب خون ماریں اور تیزی سے واپس آجائیں۔ اونٹ تیز رفتار جانور نہیں ہے ‘ پھر وہ گھوڑے کے مقابلے میں تیزی سے اپنا رخ بھی نہیں پھیر سکتا۔ مگر گھوڑا جہاں تیز رفتار جانور ہے ‘ وہاں تنک مزاج اور نازک مزاج بھی ہے۔ چناچہ وہ تربیت کے لیے ان گھوڑوں سے یہ مشقت کراتے تھے کہ ان کو بھوکا پیاسا رکھتے تھے اور ان کے ُ منہ پر ایک تو بڑا چڑھا دیتے تھے۔ اس عمل کو وہ صوم کہتے تھے اور جس گھوڑے پر یہ عمل کیا جائے اسے وہ صائم کہتے تھے ‘ یعنی یہ روزہ سے ہے۔ اس طرح وہ گھوڑوں کو بھوک پیاس جھیلنے کا عادی بناتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مہم کے دوران گھوڑا بھوک پیاس برداشت نہ کرسکے اور جی ہار دے۔ اس طرح تو سوار کی جان شدید خطرے میں پڑجائے گی اور اسے زندگی کے لالے پڑجائیں گے ! مزید یہ کہ عرب اس طور پر گھوڑوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر موسم گرما اور لو کی حالت میں انہیں لے کر میدان میں جا کھڑے ہوتے تھے۔ وہ اپنی حفاظت کے لیے اپنے سروں پر ڈھاٹے باندھ کر اور جسم پر کپڑے وغیرہ لپیٹ کر ان گھوڑوں کی پیٹھ پر سوار رہتے تھے اور ان گھوڑوں کا منہ سیدھا لو اور باد صرصر کے تھپیڑوں کی طرف رکھتے تھے ‘ تاکہ ان کے اندر بھوک پیاس کے ساتھ ساتھ لو کے ان تھپیڑوں کو برداشت کرنے کی عادت بھی پڑجائے ‘ تاکہ کسی ڈاکے کی مہم یا قبائلی جنگ کے موقع پر گھوڑا سوار کے قابو میں رہے اور بھوک پیاس یا باد صرصر کے تھپیڑوں کو برداشت کر کے سوار کی مرضی کے مطابق مطلوبہُ رخ برقرار رکھے اور اس سے منہ نہ پھیرے۔ تو عرب اپنے گھوڑوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر جو مشقت کراتے تھے اس پر وہ صوم کے لفظ یعنی روزہ کا اطلاق کرتے تھے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں یہود کے ہاں روزہ رکھنے کا رواج تھا۔ وہ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے ‘ اس لیے کہ اس روز بنی اسرائیل کو فرعونیوں سے نجات ملی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ابتداءً ہر مہینے ایامِّ بیض کے تین روزے رکھنے کا حکم دیا۔ اس رکوع کی ابتدائی دو آیات میں غالباً اسی کی توثیق ہے۔ اگر ابتدا ہی میں پورے مہینے کے روزے فرض کردیے جاتے تو وہ یقیناً شاق گزرتے۔ ظاہر بات ہے کہ مہینے سخت گرم بھی ہوسکتے ہیں۔ اب اگر تیس کے تیس روزے ایک ہی مہینے میں فرض کردیے گئے ہوتے اور وہ جون جولائی کے ہوتے تو جان ہی تو نکل جاتی۔ چناچہ بہترین تدبیر یہ کی گئی کہ ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا اور یہ روزے مختلف موسموں میں آتے رہے۔ پھر کچھ عرصے کے بعد رمضان کے روزے فرض کیے گئے۔ ہر مہینے میں تین دن کے روزوں کا جو ابتدائی حکم تھا اس میں علی الاطلاق یہ اجازت تھی کہ جو شخص یہ روزہ نہ رکھے وہ اس کا فدیہ دے ‘ اگرچہ وہ بیمار یا مسافر نہ ہو اور روزہ رکھنے کی طاقت بھی رکھتا ہو۔ جب رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم آگیا تو اب یہ رخصت ختم کردی گئی۔ البتہ رسول اللہ ﷺ نے فدیہ کی اس رخصت کو ایسے شخص کے لیے باقی رکھا جو بہت بوڑھا ہے ‘ یا کسی ایسی سخت بیماری میں مبتلا ہے کہ روزہ رکھنے سے اس کے لیے جان کی ہلاکت کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ یہ ہے ان آیات کی تاویل جس پر میں بہت عرصہ پہلے پہنچ گیا تھا ‘ لیکن چونکہ اکثر مفسرین نے یہ بات نہیں لکھی اس لیے میں اسے بیان کرنے سے جھجکتا رہا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ مولانا انور شاہ کا شمیری رح کی رائے یہی ہے تو مجھے اپنی رائے پر اعتماد ہوگیا۔ پھر مجھے اس کا ذکر تفسیر کبیر میں امام رازی رح کے ہاں بھی مل گیا کہ متقدمین کے ہاں یہ رائے موجود ہے کہ روزے سے متعلق پہلی دو آیتیں 183 ‘ 184 رمضان کے روزے سے متعلق نہیں ہیں ‘ بلکہ وہ ایام بیض کے روزوں سے متعلق ہیں۔ ایام بیض کے روزے رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد بھی نفلاً رکھے ہیں۔ روزے کے احکام پر مشتمل یہ رکوع چھ آیتوں پر مشتمل ہے اور یہ اس اعتبار سے ایک عجیب مقام ہے کہ اس ایک جگہ روزے کا تذکرہ جامعیت کے ساتھ آگیا ہے۔ قرآن مجید میں دیگراحکام بہت دفعہ آئے ہیں۔ نماز کے احکام بہت سے مقامات پر آئے ہیں۔ کہیں وضو کے احکام آئے ہیں تو کہیں تیمم کے ‘ کہیں نماز قصر اور نماز خوف کا ذکر ہے۔ لیکن صوم کی عبادت پر یہ کل چھ آیات ہیں ‘ جن میں اس کی حکمت ‘ اس کی غرض وغایت اور اس کے احکام سب کے سب ایک جگہ آگئے ہیں۔ فرمایا : آیت 183 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ وہ جنگ کے لیے گھوڑے کو تیار کرواتے تھے ‘ تمہیں تقویٰ کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ روزے کی مشق تم سے اس لیے کرائی جا رہی ہے تاکہ تم بھوک کو قابو میں رکھ سکو ‘ شہوت کو قابو میں رکھ سکو ‘ پیاس کو برداشت کرسکو۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلنا ہوگا ‘ اس میں بھوک بھی آئے گی ‘ پیاس بھی آئے گی۔ اپنے آپ کو جہاد و قتال کے لیے تیار کرو۔ سورة البقرۃ کے اگلے رکوع سے قتال کی بحث شروع ہوجائے گی۔ چناچہ روزے کی یہ بحث گویا قتال کے لیے بطور تمہیدآ رہی ہے۔
Top