Bayan-ul-Quran - Al-Baqara : 156
الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ
الَّذِيْنَ : وہ جو اِذَآ : جب اَصَابَتْهُمْ : پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالُوْٓا : وہ کہیں اِنَّا لِلّٰهِ : ہم اللہ کے لیے وَاِنَّآ : اور ہم اِلَيْهِ : اس کی طرف رٰجِعُوْنَ : لوٹنے والے
وہ لوگ کہ جن کو جب بھی کوئی مصیبت آئے تو وہ کہتے ہیں کہ بیشک ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ جانا ہے۔
آیت 156 الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ آخر کار تو یہاں سے جانا ہے ‘ اگر کل کی بجائے ہمیں آج ہی بلا لیا جائے تب بھی حاضر ہیں۔ بقول اقبال : ؂ نشان مرد مؤمن با تو گویم چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست ! یعنی مرد مؤمن کی تو نشانی ہی یہی ہے کہ جب موت آتی ہے تو مسرتّ کے ساتھ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ وہ دنیا سے مسکراتا ہوا رخصت ہوتا ہے۔ یہ ایمان کی علامت ہے اور بندۂ مؤمن اس دنیا میں زیادہ دیر تک رہنے کی خواہش نہیں کرسکتا۔ اسے معلوم ہے کہ وہ دنیا میں جو لمحہ بھی گزار رہا ہے اسے اس کا حساب دینا ہوگا۔ تو جتنی عمر بڑھ رہی ہے حساب بڑھ رہا ہے۔ چناچہ حدیث میں دنیا کو مؤمن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت قرار دیا گیا ہے : اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ 18
Top