Bayan-ul-Quran - Al-Israa : 75
اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَیٰوةِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا
اِذًا : اس صورت میں لَّاَذَقْنٰكَ : ہم تمہیں چکھاتے ضِعْفَ : دوگنی الْحَيٰوةِ : زندگی وَضِعْفَ : اور دوگنی الْمَمَاتِ : موت ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاتے لَكَ : اپنے لیے عَلَيْنَا : ہم پر (ہمارے مقابلہ میں) نَصِيْرًا : کوئی مددگار
(اگر ایساہو جاتا) تب ہم آپ کو دگنی سزا دیتے زندگی میں اور دگنی سزا دیتے موت پر پھر نہ پاتے آپ اپنے لیے ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار
آیت 75 اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَيٰوةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ اَلرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلَ وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی ”رب تو آخر رب ہے جتنا بھی تنزل فرما لے اور بندہ بہر حال بندہ ہی ہے جس قدر بھی ترقی پالے !“ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيْرًا آیت کا مضمون بہت نازک ہے۔ بہر حال میں نے الفاظ کے مطابق ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن موقع محل اور سیاق وسباق کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اصل مفہوم کو دقت نظری سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ یہ خطاب نبی اکرم سے ہے مگر سختی کا رخ ان لوگوں کی طرف ہے جنہوں نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے آپ کے مقابلے میں ایسے حالات پیدا کر رکھے تھے۔ ان الفاظ میں ان لوگوں کو سنایا جا رہا ہے کہ بد بختو ! تم جو چاہو کرلو ہمارے نبی تمہارے اس دباؤ میں آکر تمہارے مطالبات ماننے والے نہیں ہیں۔
Top