Bayan-ul-Quran - Al-Israa : 45
وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًاۙ
وَاِذَا : اور جب قَرَاْتَ : تم پڑھتے ہو الْقُرْاٰنَ : قرآن جَعَلْنَا : ہم کردیتے ہیں بَيْنَكَ : تمہارے درمیان وَبَيْنَ : اور درمیان الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر حِجَابًا : ایک پردہ مَّسْتُوْرًا : چھپا ہوا
اور جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ایک مخفی پردہ حائل کردیتے ہیں
آیت 45 وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا اس آیت میں ایک دفعہ پھر قرآن کا ذکر آیا ہے۔ یہاں ایک غیر مرئی پردے کا ذکر ہے جو منکرین آخرت اور ہدایت کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ ایسے لوگوں کے ہر عمل کا معیار و مقصود صرف اور صرف دنیا کی زندگی ہے۔ وہ نہ تو آخرت کی زندگی کے قائل ہیں اور نہ ہی وہاں کے اجر وثواب کے بارے میں سنجیدہ۔ دنیا میں وہ ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست“ کے نظریے پر زندگی بسر کر رہے ہیں اور قرآن کو یا ہدایت کی کسی بھی بات کو توجہ سے نہیں سنتے۔ ایسے لوگوں کو ان کے اسی رویے کی بنا پر ہدایت سے مستقلاً محروم کردیا جاتا ہے۔ اور چونکہ یہ اللہ کا قانون ہے اس لیے آیت زیر نظر میں اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف منسوب کیا ہے کہ جب آپ انہیں قرآن پڑھ کر سناتے ہیں تو ان کے غیر سنجیدہ رویے ّ کی بنا پر ہم آپ کے اور ان کے درمیان ایک غیر مرئی پردہ حائل کردیتے ہیں۔
Top