بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Nooh : 1
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّآ : بیشک ہم نے اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے نُوْحًا : نوح کو اِلٰى قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم کی طرف اَنْ اَنْذِرْ : کہ ڈراؤ قَوْمَكَ : اپنی قوم کو مِنْ : سے قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ يَّاْتِيَهُمْ : کہ آئے ان کے پاس عَذَابٌ اَلِيْمٌ : عذاب دردناک
بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف یہ حکم دے کر بھیجا تھا کہ تم اپنی قوم کو دردناک عذاب آنے سے پہلے آگاہ کردو۔
لغات القرآن۔ لم یزد۔ نہیں بڑھایا۔ استغشوا۔ انہوں نے لپیٹ لئے۔ اصروا۔ انہوں نے اصرار کیا۔ ضد کی۔ جھار۔ پکار پکار کر۔ اسررت۔ میں نے چپکے چپکے کہا۔ مدرار۔ لگاتار ۔ وقار ۔ عزت۔ بڑائی۔ اطوار۔ طرح طرح۔ بساط۔ بچھونا۔ کبار۔ بڑی بات۔ لاتذرن۔ نہ چھوڑنا۔ لا تذر۔ نہ چھوڑ۔ دیار۔ گھر۔ چلتا پھرتا۔ لا یلدوا۔ نہ جنیں گے۔ تبار۔ تباہی۔ تشریح : حضرت آدم (علیہ السلام) کے بع دنبی تو بہت سے آئے لیکن وہ نبی جن کو سب سے پہلے رسالت سے نوازا گیا وہ حضرت نوح (علیہ السلام) تھے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے ایک طویل حدیث میں اسی بات کی وضاحت کی گئی ہے۔ فرمای ایا نوح انت اول الرسل الی الارض۔ یعنی اے نوح تو زمین پر سب سے پہلا رسول بنا کر بھیجا گیا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی آٹھویں پشت تک کوئی کافر و مشرک نہ تھا۔ جو لوگ راہ حق سے ہٹ جاتے ان کی اصلاح کے لئے نبی آتے رہے اور حضرت ادریس (علیہ السلام) جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے انہوں نے پوری قوم کو توحید کا درس دیا۔ ان کے ماننے والے بزرگوں میں سے ود، سواع، یغوچ، یعقو، اور نسر تھے جنہوں نے دین کی سچائی پر پوری قوم کو چلایا۔ پوری قوم ان سے بےانتہا عقیدت و محبت رکھتی تھی اور ان کے بتائے ہوئے طریقہ پر چلتی تھی۔ جب ان پانچوں بزرگوں کا انتقال ہوگیا تو لوگوں کے عقیدوں میں بھی کمزوریاں آنا شروع ہوگئیں۔ کسی طرح شیطان نے ان کے دلوں میں یہ وسوسہ پیدا کیا کہ اگر بزرگوں کو یاد رکھنے کے لئے ان کی تصویریں بنا لی جائیں تو نہ صرف عبادت میں خشوع و خضوع اور سکون حاصل ہوگا بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی یہ معلوم ہوگا کہ ان بزرگوں کے طفیل انہیں راہ ہدایت نصیب ہوئی ہے۔ چونکہ ہر گمراہی کیا بتداء ہمیشہ عقیدت و محبت میں حد سے بڑھ جانے سے ہوتی ہے لہٰذا لوگوں نے ان بزرگوں کی مورتیاں بنالیں اور ان کی زیارت کرکے اپنی عقیدت و محبت میں ایک خاص لذت محسوس کرنے لگے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اس کے بعد کی نسلوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہمارے باپ دادا ان تصویروں سے محبت وعقیدتے رکھتے تھے۔ ہمیں ان کا پوری طرح احترام کرنا چاہیے۔ پھر شطان نے ان کو یہ بات سمجھا دی کہہ اصل میں یہی تمہارے معبود ہیں۔ اس طرح بت پرستی کا آغاز ہوا جس کے بہت کچھ آثار عربوں میں بت پرستی کی شکل میں بھی پائے جاتے ہں۔ بت پرستی کی شدت بڑھتی چلی گئی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں پورے معاشرہ میں بسنے والے لوگوں کا اخلاقی اور مذہبی بگاڑ اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ جو بھی اٹھتا وہ مزید خرابیاں پیدا کرنے کا ذریعہ بن جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو جب چالیس سال کی عمر میں نبوت و رسالت سے نوازا تو انہوں نے تمام پیغمبروں کی طرح عبادت و بندگی، تقویٰ ، پرہیز گاری اور اطاعت رسول کا درس دینا شروع کیا۔ ابتداء میں تو لوگوں نے کوئی توجہ نہ کی لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی تبلیغ کا اچھا خاصا اثر ہونا شروع ہوگیا ہے تو انہوں نے ان کا مذاق اڑانا شروع کیا۔ کہنے لگ کہ اے نوح (علیہ السلام) ! نہ تو تمہارے پاس کوئی مال و دولت ہے اور نہ کوئی صاحب حیثیت مال دار تمہاری کسی بات کو سننا پسند کرتا ہے۔ کچھ غریب و مفلس لوگ تمہاری باتوں کو سن کر تمہارے اردگرد جمع ہوگئے ہیں اور یہ معاشرہ کے وہ لو گ ہیں جن کے پاس بیٹھنا نہ صرف ہماری توہین ہے بلکہ ہمیں ان کے قریب آنے سے بھی گھن آتی ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اس کا یہی جواب دیتے تھے کہ میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے اب اگر میری بات غریب اور مفلس لوگ ہی سنتے ہیں تو یہ ان کی سعادت ہے یہ اللہ کے نیک اور مخلص بندے ہیں میں ان کو اپنے پاس سے کیسے بھگا سکتا ہوں۔ اگر میں نے بھی ان سے وہی معاملہ کیا جو تم کر رہے ہو تو بتائو مجھے اللہ سے کون بچائے گا ؟ حضرت نوح (علیہ السلام) نے نسل در نسل ساڑھے نو سو سال تک مسلسل اللہ کا دین پھیلانے کی جدوجہد کی اس طویل عرصہ میں نہ تو آپ نے اپنی جدوجہد اور کوشش میں کمی آنے دی اور نہ مایوس ہوئے بلکہ تبلیغ دین کی وجہ سے قوم نے جو بدترین تکلیفیں پہنچائیں ان پر صبر کیا۔ اس قوم کا یہ حال تھا کہ وہ کبھی ان کا گلا گھونٹ دیتے جس سے وہ بےہوش ہوجاتے۔ کبھی وہ پتھر مار مار کر ان کو زخمی کردیتے۔ کبھی اتنا مارتے کہ آپ پر غشی طاری ہوجاتی لیکن ہوش میں آنے پر ان کی زبان پر بدعا کے بجائے یہ الفاظ ہوتے رب اغفر لقومی بانھم لا یعلمون۔ اے میرے پروردگا ان کو معاف فرما دے کیونکہ یہ مجھے جانتے نہیں۔ ان تمام تر اذیتوں کے باوجود حضرت نوح (علیہ السلام) صبح و شام رات اور دن اپنی قوم کو یہی پیغام دیتے تھے کہ لوگو ! اللہ کی عبادت و بندگی کرو، اسی سے ڈرو میں جو کچھ کہتا ہوں اس کی اطاعت کرو جس سے منع کردوں اس سے رک جائو۔ اگر تم نے بتوں کے بجائے صرف اللہ کی عبادت و بندگی کی اور میری اطاعت کی تو اللہ نہ صرف تمہارے گناہ معاف کردے گا بلکہ وہ قحط کو دور کرکے تم پر مسلسل بارش برسائے گا جس سے تمہارے کھیل لہلہا اتھیں گے۔ تمہارے مالوں اور اولاد میں برکت اور ترقی ہوگی۔ تمہارے لئے حسین ترین باغات پیدا کرکے نہریں جاری کردے گا۔ جس نے اوپر تلے سات آسمان بنائے، چاند کو روشن کیا، سورج کی دھکایا، زمین کو راحت و آرام کا ذریعہ بنایا۔ اسی نے راستے بنائے تاکہ تم ان میں چل پھر سکو تم صرف اسی کی عبادت و بندگی کرو۔ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو تم پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ وہ مذاق اڑاتے ہوئے کہتے کہ تم جس عذا کی دھمکی دیتے ہو وہ آخر کب آئے گا ؟ ہم تو سن سن کر حیران و پریشان ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا سنجید جواب یہی ہوا کرتا تھا کہ اس کا علم تو اللہ کو ہے مجھے اس کو کوئی علم نہیں البتہ مجھے یہ معلوم ہے کہ نافرمان قوموں کا انجام بڑا بھیانک ہوا کرتا ہے۔ جب اس کا عذاب آتا ہے تو پھر کسی میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اس عذاب کو ٹال سکے۔ ابھی وقت ہے کہ تم ایمان لا کر اعمال صالح اختیار کرلو۔ وہ قوم حضرت نوح کی باتوں سے بچنے کے لئے کبھی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتی کبھی منہ پر کپڑا دال لیتی تاکہ نہ وہ سن سکیں اور نہ دیکھ سکیں۔ وہ اپنے لوگوں سے کہتے کہ تمہارے معبود تو ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر ہیں تم ان کو ہرگز نہ چھوڑنا۔ حق و صداقت کی باتوں کو سننے کے باوجود ان میں ضد اور ہٹ دھرمی بڑھتی گئی اور انہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی زبردست مخالفت میں اور شدت پیدا کردی۔ جب اسلاح کی ہر کوشش ناکام ہوگئی اور ان کو اشارہ الٰہی بھی مل گیا کہ اب اس قوم میں سے جن لوگوں کو ایمان لانا تھا وہ لا چکے تب حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ کی بارگاہ میں فریاد پیش کردی اور عرض کیا الٰہی ! میں نے ان کو دن رات ہر مجلس میں اور ہر جگہ پوری طرح سمجھایا مگر وہ میرے قریب آنے کے بجائے مجھ سے دور ہی بھاگتے رہے۔ اب آپ اس قوم کے لئے فیصلہ فرما دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نوح (علیہ السلام) آپ ایساجہاز (ایسی کشتی) تیار کیجئے جس میں اہل ایمان کو اور جانوروں میں سے ایک ایک جوڑے کو سوار کرا سکیں اور راکھ سکیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب کشتی تیار کرنا شروع کی تو کفار نے مذاق اڑانا شروع کیا کہ کیا خشکی میں بھی کشتیاں چلا کریں گے ؟ حضرت نوح (علیہ السلام) نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے کشتی تیار کرتے رہے۔ جب انہوں نے اس بڑی کشتی کو تیار کرلیا تو زمین کی تہہ سے پانی کا چشمہ ابلنا شروع ہوا۔ روایات کے مطابق صرف چالیس یا کچھ زیادہ اہل ایمان آپ کے ساتھ تھے جن کو کشتی پر سوار کرلیا گیا تھا۔ اور جانوروں میں سے ایک ایک جوڑے کو رکھ لیا گیا تھا۔ پھر اس کے بعد اللہ نے زمین و آسمان کے سوتے کھول دئیے۔ ہر طرف سے پانی کا طوفان آیا تو لوگ پہاڑوں کو رکھ لیا گیا تھا۔ پھر اس کے بعد اللہ نے زمین و آسمان کے سوتے کھول دیئے۔ ہر طرف سے پانی کا طوفان آیا تو لوگ پہاڑوں پر پناہ لینے کے لئے دوڑے مگر پانی بڑھتا چلا گیا اور پہاڑوں پر پناہ لینے والے بھی ڈوب گئے۔ یہ کشتی نوح چلتی رہی جب یہ طوفانی پانی کم ہونا شروع ہوا تو وہ اراراط کے پہاڑی سلسلہ میں سے ایک پہاڑ جس کا نام ” جودی “ تھا جو دجلہ و فرات کے درمیان میں موجود تھا یہ سفینہ نوح وہاں جا کر ٹھہر گیا۔ اور اس طرح اللہ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا کو قبول کرکے کفار و مشرکین اور ان کی ترقیات کو تہس نہس کردیا اور اللہ نے اہل ایمان کو بچالیا۔ اہل مکہ کو خاص طور پر بتایا جا رہا ہے کہ یہ اللہ کا وہ نظام ہے جو شروع سے چلا آرہا ہے اگر انہوں نے بھی اللہ کے رسول کی نافرمانی کی اور ان کو حضرت نوح کی طرح سے ستایا ان پر ایمان لانے والے غریب اور مفلسوں کا مذاق اڑایا اور اللہ کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری نہ کی تو ان کو انجام بھی حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے پیغمبروں کی نافرمان امتوں سے مختلف نہ ہوگا۔
Top