بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - As-Saff : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ لِلّٰهِ : تسبیح کی ہے اللہ کے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ : اور جو زمین میں ہے وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب مخلوق اسی کی پاکی بیان کرتی ہے۔ وہ زبردست حکمت والا ہے۔
لغات القرآن۔ لم تقولون۔ تم کیوں کہتے ہو۔ کبر مقتا۔ بڑی بری بات۔ صفا۔ ایک صف (باندھ کر) ۔ بنیان۔ دیواریں۔ مرصوص (رص) ۔ سیسہ پلائی گئی مضبوط۔ لم تو ذوننی۔ تم مجھے کیوں ستاتے ہو ؟ کیوں مجھے اذیت دیتے ہو ؟ ۔ زاغوا۔ وہ ٹیڑھے ہوگئے۔ ازاغ ۔ اس نے ٹیڑھا کردیا۔ مبشرا۔ خوش خبری دینے والا۔ یدعی۔ وہ بلاتا ہے۔ یطفئوا۔ وہ بجھاتے ہیں۔ ارسل۔ اس نے بھیجا۔ لیظھرہ۔ تاکہ وہ اس کو غالب کردے۔ تشریح : مومن اور منافق میں فرق یہ ہے کہ مومن جو کچھ زبان سے کہتا ہے اس پر پوری طرح عمل کرتا ہے۔ وہ دنیا کے فائدے حاصل کرنے کے لئے جھوٹ، وعدہ خلافی، بددیانتی نہیں کرتا اور لڑائی جھگڑے کے وقت اخلاق اور شرافت کی حدوں کو نہیں پھلانگتا۔ مومن جرأت مند اور سخت سے سخت حالات کے سامنے ڈٹ کر صبر اور برداشت کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔ اس کے برخلاف منافق کی پہنچان یہ ہے کہ وہ نماز، روزہ، زکوٰۃ دیتے ہوئے بھی ریاکاری کرتا ہے اور اس کی زبان اور اس کا عمل مختلف ہوتا ہے۔ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے ان کے سامنے ڈھیر ہوجاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ اور گذشتہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے زمانے میں مخلص اور جرأت مند مسلمانوں میں کچھ ایسے منافق اور مفاد پرست بھی رہے ہیں جو دنیا کے معمولی اور وقتی فائدوں کے لئے جس بات کو زبان سے کہتے اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اسی طرف متوجہ کیا ہے کہ وہ اپنی زبان سے جو بات بھی نکالیں اسی پر اسی طرح عمل کریں جیسا کہ حکم دیا گی ا ہے۔ کیونکہ اللہ کو ایسے لوگ سخت ناپسند ہیں جن کے قول اور عمل میں مطابقت اور یکسانیت نہیں ہوتی۔ نبی کریم ﷺ نے منافقی کی چند علامتیں بتائی ہیں تاکہ تمام مومن ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں اور اپنے اندر ان جیسی بری عادتوں کو پروان نہ چڑھنے دیں۔ بخاری و مسلم میں نبی کریم ﷺ سے روایت بیان کی گئی ہے۔ فرمایا کہ منافقی کی تین نشانیاں ہیں اگر چہ وہ نماز پڑھتا اور روزے رکھتا ہو اور مسلمان ہونے کا دعوے دار بھی ہو (1) جب بھی بولتا ہے تو وہ بات جھوٹ ہوتی ہے (2) جب وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے (3) اور جب اس کے پاس کوئی امانت رکھوائی جاتی ہے تو وہ اس میں خیانت اور بددیانتی کرتا ہے۔ بخاری و مسلم ہی کی دوسری روایت میں منافقین کی چار صفات کو بیان کیا گیا ہے۔ اور فرمایا کہ جس میں چار خصلتیں پائی جاتی ہیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں کوئی ایک صفت پائی جائے تو اس میں منافقت کی ایک خصلت اور صفت ہے۔ (1) جب اس کو کوئی امانت سپرد کی جائے تو وہ اس میں خیانت کرتا ہے (2) جب بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے (3) جب کوئی عہد یا وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے (4) اور جب لڑتا ہے تو اخلاق اور دیانت کی حدیں توڑ ڈالتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ جو لوگ صراط مستقیم کو چھوڑ کر گمراہی کے راستوں پر پڑجاتے ہیں اللہ ان کو اسی گمراہی کے راستے پر بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ سراسر انسان کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ ہدایت اور گمراہی میں سے کس راستے کو منتخب کرتا ہے۔ سیدھا راستہ اختیار کرکے اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارتا ہے یا غلط اور گمراہی کا راستہ منتخب کرکے اپنی دنیا اور آخرت کی ابدی زندگی کو تباہ وبرباد کرلیتا ہے۔ اہل مکہ اور قیامت تک آنے والے انسانوں سے کہا جا رہا ہے کہ جب اللہ کے آخری نبی اور رسول محمد مصطفیٰ ﷺ تشریف لا چکے ہیں تو اب آپ کے بعد کوئی نیا نبی یا نئی شریعت نہیں آئے گی لہٰذا وہ گمراہی کا راستہ اختیار نہ کریں بلکہ ہدایت کے راستے پر آجائیں۔ فرمایا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی اللہ کی طرف سے شریعت لے کر آئے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے دامن سے وابستگی کی وہی کامیاب رہے لیکن جنہوں نے ان کی مخالفت کی یا ان کے بتائے ہوئے راستے کے برخلاف دوسرے راستے اختیار کئے ان کی نہ صرف دنیا تباہ و برباد ہوئی بلکہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی آخرت کو بھی برباد کر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرمایا دیا کہ اللہ کسی انسان کی عبادت، تسبیح اور حمد وثنا کا محتاج نہیں ہے کیونکہ اگر تمام انسان اللہ کی حمدو ثنا نہیں کرین گے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ہر وقت اور ہر آن اس کی حمدو ثنا میں لگا ہوا ہے اور جس کو جو حکم دیدیا گیا ہے اور اس کی تعمیل کر رہا ہے۔ ایمان والوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم بھی وہی کرو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ تمہاری زبان اور عمل میں ایسی مطابقت ہونی چاہیے کہ تم جو کچھ زبان سے کہتے ہو اس پر اسی طرح عمل کرو اور اگر ایمان کا دعویٰ ہے تو جب اہل ایمان اور دین پر مشکل وقت آجائے تو پھر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جائو تاکہ کفر کی مجال نہ ہو کہ وہ اہل ایمان کی آنکھون میں آنکھیں ڈال کر بات بھی کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر بھیجا جنہیں ان کی قوم نے سخت اذیتیں پہنچائیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا جیسا کہ تم جانتے ہو اور تم معجزات بھی دیکھ چکے ہو اور تمہیں معلو ہے کہ اللہ نے مجھے اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے پھر تم مجھے تکلیفیں کیوں پہنچاتے ہو ؟ مگر قوم اپنی گمراہی میں آگے ہی بڑھتی چلی گئی۔ آخر کار اللہ نے کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ انہیں ہر سیدھی بات الٹی نظر آنے لگی۔ اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کی گمراہ قوم کی ہدایت کے لئے بھیجا تھا۔ حضرت عیٰسی (علیہ السلام) نے توریت کی تصدیق کی اور بتایا کہ میرے بعد ایک ایسے پیغمبر تشریف لانے والے ہیں جن کا نام ” احمد ﷺ “ ہوگا۔ تم میری بات بھی مانو اور ان کی بات بھی ماننا۔ ان کی قوم نے معجزات کو کھلی آنکھوں سے دیکھا لیکن ان کو تسلیم نہیں کیا اور وہ قوم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دشمنی میں اتنی آگے بڑھ گئی کہ اللہ کے پیغمبر کو سولی پر لٹکانے کے لئے تیار ہوگئی۔ اللہ نے اپنی قدرت سے ان کو آسمانوں پر اٹھا لیا اور اب وہ قیامت کے قریب حضور اکرم ﷺ کے ایک امتی کی حیثیت سے دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودو نصاری سے فرمایا ہے کہ اگر تم نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اسی طرح اذیتیں پہنچائیں جس طرح تم نے اپنے پیغمبروں کو تکلیفیں پہنچائی تھیں تو پھر اب تمہاری ہدایت کا کوئی طریقہ باقی نہ بچے گا۔ لہٰذا تم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے دامن سے وابستگی اختیار کرلو۔ دنیا اور آخرت کی ساری کامیابیاں اسی میں پوشیدہ ہیں۔
Top