Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 80
وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗ١ؕ قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنِ١ؕ وَ لَاۤ اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ رَبِّیْ شَیْئًا١ؕ وَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا١ؕ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ
وَحَآجَّهٗ : اور اس سے جھگڑا کیا قَوْمُهٗ : اس کی قوم قَالَ : اس نے کہا اَتُحَآجُّوْٓنِّىْ : کیا تم مجھ سے جھگڑتے ہو فِي : میں اللّٰهِ : اللہ وَ : اور قَدْ هَدٰىنِ : اس نے مجھے ہدایت دے دی ہے وَ : اور لَآ اَخَافُ : نہیں ڈرتا میں مَا تُشْرِكُوْنَ : جو تم شریک کرتے ہو بِهٖٓ : اس کا اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ : چاہے رَبِّيْ : میرا رب شَيْئًا : کچھ وَسِعَ : احاطہ کرلیا رَبِّيْ : میرا رب كُلَّ شَيْءٍ : ہر چیز عِلْمًا : علم اَ : کیا فَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ : سو تم نہیں سوچتے
اس کی قوم اس سے جھگڑنے لگی۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کیا تم لوگ مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ اس نے مجھے راہ ہدایت کی توفیق بخشی ہے۔ میں تمہارے بنائے ہوئے معبودوں سے نہیں ڈرتا۔ مگر ہاں میرا پروردگار ہی کچھ چاہے تو اور بات ہے۔ جو کچ بھی ہونا ہے وہ پہلے ہی میرے رب کے علم ( اور ارادے) میں ہے۔ پھر کیا تم سوچتے نہیں ہو ؟
لغات القرآن : آیت نمبر 80 تا 83 : حاج (جھگڑا کیا) اتحآ جونی (کیا تم مجھ سے جھگڑتے ہو) ھدن (اس نے مجھے ہدایت دی۔ (یہاں ” ی “ گر گئی) کیف اخاف (میں کیوں ڈروں) ‘ لم ینزل (نازل نہیں کی گئی) سلطان ( دلیل۔ وجہ ۔ سبب) ای الفریقین (دونوں جماعتوں میں سے کونسی ؟ ) احق ( زیادہ حق دار ہے) ‘ لم یلبسوا ( انہوں نے نہیں ملایا) نرفع ( ہم بلند کرتے ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 80 تا 83 : ہر نظام کسی عقیدے پر قائم ہوتا ہے۔ اگر وہ عقیدہ ہی ہل جائے تو ویں سمجھ لیا جائے کہ کسی عمارت کے نیچے سے بنیادی پتھر کھینچ لیا گیا۔ نمرودی نظام میں بہت سے مصنوعی معبود تھے جن میں سب سے زیادہ اہمیت خود باشاہ وقت نمرود کی تھی۔ (یہ بادشاہ کا نام نہیں ہے بلکہ فرعون کی طرح کا لقب ہے) معبودیت کا عقیدہ اگر مسمار ہوجائے تو اس کے اقتدارکا محل مٹی کے گھر وندے کی طرح زمین پر آرہتا ہے۔ نمرود کو معبود کے مقام پر رکھنے سے ہزاوں ہزاروزیروں ‘ افسروں ‘ پنڈتوں ‘ پروہتوں اور دوسرے عقیدہ فروشوں کا مالی اور مادی مفاد وابستہ تھا۔ پھر ان کے پیچھے جاہل ‘ احمق روایت پر ست عوام جوق درجوق تھے جو لگی بندھی لکیر کے فقیر نسلاً بعد نسل چلے آرہے تھے۔ وہ سب کے سب کس طرح ٹھنڈے پیٹوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عقیدہ توحید کو برداشت کرلیتے۔ اسلام زندگی کے ہر موڑ پر اپنے اوامر ونواہی لے کر آتا ہے جو وقت کے نمرودوں کے اوامرونواہی سے ٹکراتا ہے ۔ اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کوئی ایسا فکر و عقیدہ لے کر آتے جس میں صرف پوجاپاٹ کی رسومات ہوتیں لیکن اوامر ونواہی نہ ہوتے ‘ جس کی ساری دلچسپی اندرون کلیساو بت خانہ سے ہوتی ‘ قومی اور بین الاقوامی ‘ سیاسی ‘ جنگی ‘ مالی ‘ تجارتی مسائل سے نہ ہوتی تو اہل نمرود کوئی ہنگامہ کھڑا نہ کرتے۔ لیکن وہ تو ایسا دین لے آئے تھے جس میں ساری زندگی کو اللہ کے لئے وقف کردینے کی بات تھی جس میں مصلحتوں پر سمجھوتے نہیں ہوتے۔ اس لئے اگر نمرود والے اٹھ کھڑے نہ ہوتے تو کیا کرتے۔ اسلام کی تبلیغ اور وہ بھی ایک پیغمبر کی قیادت میں مختلف تحر کی منزلوں سے گذرتی ہے۔ آیت نمبر 80 میں پہلی منزل کا ذکر ہے۔ یہ منزل افہام و تفہیم ‘ دلائل و مباحث ‘ مناظرہ اور مکالہ کی منزل تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو انداز ہ تھا کہ حکومت اور سوسائٹی اپنے مفاد کے لئے میری تحریک کے خلاف شمشیر وسنان لے کر اٹھ کھڑی ہوگی۔ (جو آتش نمرود کے معاملے میں صحیح ثابت ہوا) ۔ اسی لئے آپ نے فرمایا ” جائو۔ میں تمہارے بنائے ہوئے معبودوں سے نہیں ڈرتا۔ جھ پر کوئی تکلیف نہیں آسکتی البتہ اگر میرا رب چاہے تو اور بات ہے۔ جو کچھ بھی ہونا ہے وہ پہلے ہی سے میرے رب کے علم اور ارادے میں ہے “۔ آپ نے اللہ پر مکمل اعتماد کیا چناچہ اپنے سکون قلبی کا اظہار جس طرح کیا اس میں دعوت اور منطق پوری شان سے جلوہ گر ہے ۔ فرمایا۔ ” آخر میں تمہارے من گھڑت معبودوں سے کیوں ڈروں ؟ ۔ جب کہ تم اللہ کی شان میں شرک کرنے سے نہیں ڈرتے جس کی تمہارے پاس کوئی سند اور دلیل نہیں ہے۔ ایمان جس کی آخری منزل تقویٰ ہے صرف اللہ ہی سے تمام امیدیں وابستہ کرلینے اور صرف اللہ ہی سے خوف کھانے کا نام ہے۔ جنت کی امید اور جہنم کا خوف۔ جیسے جیسے ایمان ترقی کرتا جائے گا ‘ سکون قلبی بھی ترقی کرتا جائے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سکون قلبی کا دائمی نسخہ بتادیا ہے ” اطمینان قلب ! وہ تو ان ہی کے لئے ہے جو راہ حق پر ہیں ‘ جنہوں نے ایمان پا لیا اور جنہوں نے اپنے ایمان میں شرک کی ملاوٹ نہیں کی۔ ۔ آپ نے فریق مخالف کو للکار ا ابھی۔ ” بتائو ہم دونوں فریقوں میں کس کو اطمینان قلب کا زیادہ حق پہنچتا ہے۔ تمہارے دل اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ صرف اہل ایمان ہی ہیں۔ آیت نمبر 82 میں لفظ ظلم آیا ہے ‘ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کے پوچھنے پر ارشاد فرمایا کہ یہاں پر ‘ ظلم ‘ سے مراد شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے متعلق فرمایا کہ ” یہ تھی ہماری مضبوط دلیل جو ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کی قوم کے مقابلے میں سکھائی تھی۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کردیتے ہیں۔ رہتی دنیا تک اس طریقہ تبلیغ کو ‘ اس سنت ابراہیمی کو ‘ ہر مبلغ کے لئے قرآن کریم نے اپنے صفحات میں درج کردیا ہے۔ وہ کون سا مبلغ جو اطمینان قلب سے مسلح ہے۔ جو بادشاہ وقت کے خلاف اللہ کا پیغام لے کر اٹھتا ہے ‘ جو آنے والے خطرات کا صحیح اندازہ کرتا ہے اور پھر بھی ڈنکے کی چوٹ کہتا ہے کہ ” جائو میں تمہارے بنائے ہوئے معبودوں سے نہیں ڈرتا۔ جب تک میرا پروردگار نہ چاہے اس وقت تک مجھ پر کوئی تکلیف نہیں آسکتی۔ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ پہلے ہی سے میرے رب کے حکم و ارادہ میں ہے “۔ یقینا وہ مبلغ نہیں ہے جو پیغام حق سے زیادہ اپنی ناک کو عزیز رکھتا ہے۔ جو صرف بےضرر اور بےخطر باتیں پیش کرتا ہے کہ شیخ بھی خوش رہے شیطان بھی بیزار نہ ہو ‘ جس کی راہ میں نمرود ‘ ابوجہل اور ابو لہب نہیں آتے ‘ جو قرآن پڑھتا ہے اور مثالوں سے کوئی عملی سبق نہیں لیتا۔ اگر تبلیغ حق اور جہاد سے بچ کر جنت کا کوئی اور راستہ ہوتا تو تمام پیغمبر اور ان کے ماننے والے وہی راستہ اختیار کرتے ۔ اپنی جان جو کھوں میں ڈالنا کیا ضروری تھا۔ مگر پھر اللہ کے ہاں رتبے کیسے بلندہوتے۔ آگے کی آیات ان ہی باتوں کی وضاحت کرتی ہیں۔
Top