Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 7
وَ لَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ كِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَیْدِیْهِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ
وَلَوْ نَزَّلْنَا : اور اگر ہم اتاریں عَلَيْكَ : تم پر كِتٰبًا : کچھ لکھا ہوا فِيْ : میں قِرْطَاسٍ : کاغذ فَلَمَسُوْهُ : پھر اسے چھو لیں بِاَيْدِيْهِمْ : اپنے ہاتھوں سے لَقَالَ : البتہ کہیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ هٰذَآ : نہیں یہ اِلَّا : مگر سِحْرٌ : جادو مُّبِيْنٌ : کھلا
اے نبی ﷺ ! اگر ہم آپ پر کا غذ میں لکھی لکھائی کتاب بھی اتاردیتے جسے منکرین ہاتھ سے چھو لیتے ہٹ دھرم کفار یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 7 تا 11 : قرطاس (کاغذ) ‘ لمسوا ( انہوں نے چھو کر دیکھا) ‘ ملک (فرشتہ) ‘ قضی الامر (معاملہ کا فیصلہ کردیا گیا) ‘ لاینظرون (وہ مہلت نہ دئیے جائیں گے) ‘ لبسنا (ہم نے پہنا دیا۔ ڈال دیا) ‘ یلبسون ( وہ شبہ کررہے ہیں) ‘ حاق (گھیرلیا) ‘ سخروا (انہوں نے مذاق کیا) سیروا (چلو پھرو) ‘ انظروا (دیکھو) ‘ عاقبۃ (انجام) ‘ المکذبین (جھٹلانے والے) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 7 تا 11 : فرمایا گیا کہ یہ ضدی ‘ ہٹ دھرم قسم کے لوگ کیسے کیسے مطالبات اٹھاتے ہیں۔ ایک مرتبہ عبد اللہ بن ابی امیہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہہ دیا کہ میں اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لاؤں گا جب تک اپنی آنکھوں سے یہ نہ دیکھ لوں کہ آپ آسمان پر چڑھ گئے ہیں۔ آپ وہاں سے ایک اییم کتاب لے کر آگئے ہیں جسے ہم لوگ دیکھ سکیں اور چھو سکیں جس کتاب میں میرا نام لے کر یہ خط ہو کہ اس رسول کی تصدیق کرو۔ یہ سب کچھ کہنے کے بعد اس شخص نے یہ بھی کہہ دیا کہ میں پھر بھی ایمان نہیں لاؤں گا۔ دوسری مرتبہ یہی عبد اللہ بن ابی امیہ اور نضر بن حارث اور نوفل بن خالد مل کر حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہا ہم تو آپ پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں گیے جب تک آپ آسمان سے ایک کتاب لیکر نہ آجائیں۔ اس کے ساتھ چار فرشتے اتریں جو کہیں کہ واقعی یہ کتاب اللہ کی طرف سے آئی ہے اور آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ یہی عبد اللہ بن ابی امیہ خود بخود ایمان لائے۔ جہاد میں حصہ لیا اور غزوہ طائف میں شہید ہوگئے۔ ان مطالبات کا جواب ان آیا ت میں دیا گیا ہے۔ فرمایا ہے کہ اگر ان کا مطالبہ مان لیا جائے۔ کوئی ایسی کتاب آسمان سے اترے جسے یہ چھو سکیں اور پڑھ سکیں تب بھی یہ ایمان لاکر نہ دیں گے۔ ان کے اندر جو نفس پرستی کا بت بیٹھا ہے وہ پھر کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لے گا۔ اب رہا فرشتہ۔ اگر وہ انسان کی صورت میں بھیجا جائے تو ان کا شک و شبہ اپنی جگہ قائم رہ جائے گا۔ وہ کیسے فرق کرسکیں گے کہ یہ انسان ہے اور یہ فرشتہ۔ اگر فرشتہ کو فرشتہ کی شکل میں بھیجا جائے تو اول کوئی انسان فرشتہ کی شکل میں اس کو دیکھ نہیں سکتا۔ ما رہے ہیبت کے اس کا دم نکل جائے گا۔ فرشتہ تو فرشتہ کی صورت میں اسی وقت نظر آتا ہے جب دم کا نکالنا ہی مقصود ہو۔ اور جب عالم سکرات میں تسلیم کیا تو وہ ایمان کہاں ؟ ایمان کی مہلت وہیں تک ہے جب ماننے یا نہ ماننے کی دونوں طاقتیں موجود ہوں۔ جب غیب پر یقین کیا جائے جب کہ وہ ابھی غیب ہی ہے۔ جب جان نرخرہ تک پہنچ چکی اس وقت فرشتہ موت کو سامنے دیکھ کر یقین کیا تو وہ ایمان نہیں ہے۔ جب غیب حضور بن گیا پھر کون ہے جو مان کر نہ دے۔ بڑے سے بڑا کافر بھی ماننے پر مجبور ہے۔ فرعون اور موجودہ زمانے میں اسٹالن نے بھی موت کے وقت اللہ کو مانا تھا۔ مگر اس وقت ماننے سے ان کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ تو اے نبی ﷺ ! ان بددماغوں کو بکنے دیجئے اور مذاق اڑرانے دیجئے۔ آپ سے پہلے بھی پیغمبروں کو یہی تجربہ ہوچکا ہے۔ آپ بےفکر ہو کر اپنے کام میں لگے رہیے۔ ہاں بطور نصیحت و عبرت ان سے کہیئے کہ زمین کے مختلف علاقوں میں چل پھر کر دیکھ لو کہ ان قوموں کا کیا انجام ہوا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو جھٹلایا اور پیغمبروں کی باتوں پر یقین نہیں کیا۔
Top