Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 75
وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُرِيْٓ : ہم دکھانے لگے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم مَلَكُوْتَ : بادشاہی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلِيَكُوْنَ : اور تاکہ ہوجائے وہ مِنَ : سے الْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والے
اور اسی طرح ہم ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھانے لگے تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 75 تا 79 : نری (ہم دکھائیں گے) ملکوت ( نظام کائنات) الموقنین ( یقین کرنے والے) ‘ جن (چھا گیا) را ( اس نے دیکھا) ‘ کوکبا (ستارہ) ‘ وجھت ( میں نے چہرہ کرلیا۔ میں نے رخ کرلیا) ‘ فطر (اس نے بنایا۔ اس نے پیدا کیا) حنیفا (سب سے الگ۔ صرف اللہ کی عبادت کرنے والا) تشریح : آیت نمبر 75 تا 79 : ستارے ‘ چاند اور سورج۔ ان کے باری باری آنے اور غروب ہونے کا انداز کوئی انوکھا یا نیا نہیں ہے۔ ہر شخص ہر شب و روز دیکھا تا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی ہزاروں بار دیکھا ہوگا۔ مگر ایک خاص وقت پر ہی یہ کھٹک کیوں ؟ اس کا ایک جواب تو شروع آیت ہی میں دیدیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھائے تاکہ ان کے یقین و ایمان میں اضافہ دراضافہ ہوجائے۔ یہ تو فطرت کا روز مرہ کا معمول ہے لیکن ایک بار وہ عجائبات بن کر آئے یعنی انہوں نے دیکھنے والے کے دل میں ایک خاص کھٹک پیدا کی اور اسے غور فکر کی دعوت دی۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک بات جو ہر روز لگاتار پیدا ہورہی ہے اچانک کسی موقع پر خاص کھٹک پیدا کردے۔ یہی کھٹک ہنری فورڈ کے دل میں پیٹرول اور پانی کو ملتے دیکھ ملتے دیکھ کر پیدا ہوئی۔ دوسرا اہم جواب یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ سب دیکھ رہے تھے اور علی الا علان بول رہے تھے۔ اپنے لئے نہیں بلکہ شرک والوں کو منطقی دلائل سے قائل کرنے کے لئے۔ ایک اور تکنیک جو ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حکم اور ڈانت کے لب و لہجہ میں نہیں کہا کہ تم لوگ شرک چھوڑو توحید میں آجائو۔ بلکہ عقل و تدبر کے ساتھ صرف اپنی مثال پیش کی کہ جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے اپنا رخ یکسو ہو کر اس اللہ واحد کی طرف کرلیا ہے جو تمام مظاہر فطرت کا خالق اور مالک ہے جس کے حک پر ستارے چاند سورج نکلتے اور ڈوبتے ہیں۔
Top