Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 65
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ١ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں هُوَ : وہ الْقَادِرُ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يَّبْعَثَ : بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابًا : عذاب مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر اَوْ : یا مِنْ : سے تَحْتِ : نیچے اَرْجُلِكُمْ : تمہارے پاؤں اَوْ يَلْبِسَكُمْ : یا بھڑا دے تمہیں شِيَعًا : فرقہ فرقہ وَّيُذِيْقَ : اور چکھائے بَعْضَكُمْ : تم میں سے ایک بَاْسَ : لڑائی بَعْضٍ : دوسرا اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کس طرح نُصَرِّفُ : ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَفْقَهُوْنَ : سمجھ جائیں
(اے نبی ﷺ ! ) آپ صاف صاف سمجھا دیجئے کہ تمہیں عذاب دینے کی قدرت و طاقت صرف اسی کے پاس ہے۔ وہ چاہے تو عذاب تمہارے اوپر سے لے آئے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے لے آئے یا تمہیں فرقے فرقے کر کے یا آپس میں لڑائی کی تلخی چکھادے۔ دیکھو ہم اپنی آیتوں کو کس کس طرح مختلف پہلوئوں سے واضح کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔
لغات القرآن : آیت نمبر 65 تا 67 : یلبس ( وہ پہناتا ہے۔ وہ گڈ مڈ کرتا ہے) ‘ شیع ( فرقے) ‘ یذیق ( وہ چکھا تا ہے) ‘ یفقھون ( وہ سمجھتے ہیں) ‘ لست ( میں نہیں ہوں) وکیل (کام بنانے والا) ‘ مستقر (ٹھکانا) ۔ تشریح : آیت نمبر 65 تا 67 : گذشتہ دو آیات میں ذکر تھا کہ خشکی اور سمندر کی آفتوں سے صرف اللہ ہی بچا سکتا ہے۔ اب آیات 65 اور 66 میں ذکر ہے کہ وہی ایک اللہ تمہارے اوپر آفت لاسکتا ہے۔ یعنی آفت سے بچانے والا بھی وہی ہے اور آفت لانے والا بھی وہی ہے۔ یہاں خاص طور سے تین طرح کے عذابوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ایک وہ جو اوپر سے آئے دوسرے وہ جو نیچے سے آئے ۔ تیسرے باہمی فرقہ وار انہ فسادات کے ذریعہ سے پھوٹ ڈالو ادے۔ اوپر سے عذاب آنے کی مثالیں قوم عاد ‘ قوم لوط ‘ ابرہہ وغیرہ کی ہیں۔ بنی اسرائیل پر خون اور مینڈک برسائے گئے۔ قوم نوح پر اوپر سے بےتحاشا بارش اتاری گئی اور نیچے زمین سے پانی ابلنے لگا۔ آج کل اوپر اور نیچے سے بیک وقت عذاب کا خطرہ ایٹم بم ‘ ہائڈروجن بم ‘ نپ تھا لن بم وغیرہ ہے جو اوپر سے بیا آگ برسائیں گے اور نیچے بھی زلزلہ پیدا کریں گے۔ جاپان میں 1945 ء میں یہی ہوا۔ نیچے سے عذاب آنے کی مثالیں فرعون ‘ قارون ‘ عادثانی وغیرہ کی ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس مجاہد ؓ اور دوسرے ائمہ تفسیر نے کہا ہے کہ اوپر کا عذاب وہ بھی ہے جب حکمران ‘ ظالم ‘ خائن اور حرام خور ہوجائیں۔ اس طرح انتظام بگڑ جاتا ہے۔ خواہ نظام ملک کا ہو یا کسی ایک گھر یا خاندان کا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی تفسیر کی تائید چند احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ مشکوۃ شریف میں بحوالہ شعب الایمان بیہقی میں رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ تم پر اسی قسم کے حکام مسلط ہوں گے جس قسم کے تمہارے اعمال ہوں گے۔ اسی مفہوم کا ایک مشہور عربی مقولہ ہے۔ اعمالکم عمالکم۔ مشکوۃ شریف بحوالہ حلیہ ابی نعیم حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں اللہ ہوں ‘ میرے سوا کوئی معبود نہیں ‘ میں تمام بادشاہوں کا مالک اور بادشاہ ہوں۔ تمام بادشاہوں کے دل میری مٹھی میں ہیں ۔ جب میرے بندے میری اطاعت کرتے ہیں تو میں ان کے بادشاہوں اور حکام کے قلوب میں ان کی شفقت و رحمت ڈال دیتا ہوں اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حکام کے دل ان پر سخت کردیتا ہوں۔ وہ ہر طرح برائی سے انکے ساتھ پیش آتے ہیں۔ اس لئے تم حکام اور امرا کو برا کہنے میں اپنا وقت ضائع نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اور اپنے اعمال کی اصلاح میں لگ جائو تاکہ میں تمہارے کام درست کر دوں “۔ اسی طرح ابو دائود اور نسائی میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب ﷺ نے فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ کسی امیر اور حاکم کا بھلا چاہتا ہے تو اس کو اچھا وزیر اور اچھا کارکن دے دیتا ہے ۔ کہ اگر امیر سے کچھ بھول ہوجائے تو وہ اس کو یاد دلا دے۔ اور جب امیر صحیح کام کرے تو وہ اس کی مدد کرے۔ جب کسی حاکم یا امیر کے لئے برائی مقدر ہوتی ہے تو برے لوگوں کو اس کی وزارت اور امارت دے دی جاتی ہے۔ قرآن کریم (النساء۔ 59) میں فرمان الٰہی ہے ” اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور پھر ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں۔ ہاں اگر تمہارے درمیان (یعنی راعی اور رعایا کے درمیان) کسی معاملہ میں جھگڑا ہوجائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو “ حضور ﷺ کی مشہور حدیث ہے۔ بہترین جہاد سلطان جابر کے سامنے کلمہء حق کہنا ہے۔ آیت زیر تفسیر میں عذاب الٰہی کی تیسری قسم یوں مذکور ہے۔ ” اویلبسکم شیعا “۔ یعنی تم فرقہ فرقہ میں بٹ کر آپس میں لڑنے لگ جائو گے۔ اسی لئے جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو خطاب کرکے فرمایا : ” تم میرے بعد پھر ان لوگوں جیسے نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر روایت کرتے ہیں حضور ﷺ نے دعا فرمائی کہ الٰہی میری امت پر کسی دشمن کو مسلط نہ فرما جو سب کو تباہ و برباد کردے۔ یہ دعا قبول ہوئی۔ لیکن جب آپ نے یہ دعا کرنی چاہی کہ میر ی امت کو فرقہ وارانہ فسادات سے بچا تو آپ کو اس دعا کرنے سے منع کردیا گیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جارہے تھے ہمارا گزر مسجد بنی معاویہ پر ہوا تو حضور ﷺ مسجد میں تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز پڑھی۔ ہم نے دو رکعت ادا کی۔ اس کے بعد آپ دعا میں مشغول ہوگئے۔ دعاؤں سے فارغ ہو کر فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا۔ (1) میر ی امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کیجئے گا۔ اللہ نے دعا قبول فرمائی۔ (2) عرض کیا الٰہی میری امت کو قحط اور بھوک کے ذریعہ ہلاک نہ کیجئے گا۔ یہ دعا بھی قبول ہوئی۔ (3) اور میں نے عرض کیا الٰہی میری امت باہمی جنگ سے تباہ نہ ہوجائے۔ مجھے اس دعا سے روک دیا گیا۔ (مظہری بحوالہ بغوی) ان روایات سے ظاہر ہے کہ اگر مسلمانوں پر اللہ کا عذاب آیات تو فرقہ وارانہ فسادات کی صورت میں آئے گا۔ یہ فرقے مذہبی بھی ہو سکتے ہیں اور سیاسی بھی۔ وہ قومیں جو مسلمانوں کی دشمن ہیں۔ مسلمانوں کو باہم لڑا کر اپنامقصد حاصل کرنا چاہتی ہیں اور کررہی ہیں ہمیں ان سے بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے اختلاف کی دو شکلیں ہیں۔ وہ اختلاف جو اسلام کے بینادی عقیدے میں ہے جو شرک و منافقت یا مادی لالچ اور ظلم کی بدولت ہے۔ وہ عذاب الٰہی ہے لیکن وہ اختلاف رائے جو اصول اجتہاد کے ماتحت تفصیلی مسائل میں ہے جیسا کہ صحابہ وتابعین سے اب تک ہوتا چلا آیا ہے۔ جس میں فریقین کی نیت درست اور ان کی حجت قرآن و سنت اجماع ہے وہ رحمت ہے۔ ممکن ہے کسی سے اجتہادی غلطی ہوگئی ہو لیکن اگر غلطی اور اختلاف کار استہ بند کردیا جائے تو اجتہاد اور فکر و فیصلہ کا دروازہ بند ہوجائے گا اور علم و عقل کی ترقی رک جائے گی۔ یہ اختلاف فطری ہے۔ جہاں دو اہل عقل و فکر ہوں گے وہاں اختلاف قدرتی بات ہے۔ مگر یہ اختلاف دیانت اور خلوص پر مبنی ہوگا۔ کوئی کسی کو زبان کی چاشنی کے لئے برا بھلا نہ کہے گا۔ ہاں تنقید حق ہے۔ وہ بھی حدود کے اندر۔ اسی ا ختلاف کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔ آیت نمبر 67 بہت واضح ہے نبی کا کام تبلیغ ہے۔ اور بس ۔ وہ زبردستی مومن نہیں بنا سکتا۔ یہ اللہ کا کام ہے کہ کسی کے دل میں ایمان اتاردے۔ وہ لوگ جو آج تبلیغ سے نہیں مان رہے ہیں۔ کل عذاب جہنم دیکھ کر مان جائیں گے مگر وقت گذرنے کے بعد ان کا مان جانا بےفائدہ ہوگا۔
Top