Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 63
قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ۚ لَئِنْ اَنْجٰىنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں مَنْ : کون يُّنَجِّيْكُمْ : بچاتا ہے تمہیں مِّنْ : سے ظُلُمٰتِ : اندھیرے الْبَرِّ : خشکی وَالْبَحْرِ : اور دریا تَدْعُوْنَهٗ : تم پکارتے ہو اس کو تَضَرُّعًا : گڑگڑا کر وَّخُفْيَةً : اور چپکے سے لَئِنْ : کہ اگر اَنْجٰىنَا : بچا لے ہمیں مِنْ : سے هٰذِهٖ : اس لَنَكُوْنَنَّ : تو ہم ہوں مِنَ : سے الشّٰكِرِيْنَ : شکر ادا کرنے والے
ذرا پوچھئے وہ کون ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر کی آفات سے بچا کر نکال لاتا ہے جب تم گڑ گڑا کر یا دل ہی دل میں اس سے دعائیں مانگتے ہو کہ اگر وہ ہمیں اس آفت سے بچا لے تو ہم ضرور احسان مانیں گے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 63 تا 64 : ینجیکم (تمہیں نجات دیتا ہے) ‘ خفیۃ ( آہستہ۔ چپکے چپکے) انجنا ( ہمیں بچا لیا) ‘ کرب (سختی) ۔ تشریح : آیت نمبر 63 تا 64 : سفر ہو یا حضر۔ جسمانی بیماری ہو یا ذہنی الجھن ‘ مال و منال کا نقصان ہو یا اہل و عیال کا ‘ انفرادی مصیبت ہو یا قومی۔ بہر حال یہ عام مشاہدہ ہے کہ آفت کے وقت جب ظاہری تدبیروں سے کام نہیں چلتا تو انسان کے ہاتھ اس مالک کائنات کے سامنے دعا کو اٹھ جاتے ہیں۔ خواہ وہ چلا چلا کر اور آنسو بہا کر سر پٹک کر مانگے یا دل ہی دل میں اندر ہی اندر۔ بڑے سے بڑا کافر اور بڑے سے بڑا مشرک خوب جانتا ہے کہ آفتوں سے نجات دینے والا وہی ایک اللہ ہے۔ وہ دعا مانگتا ہے یا منت مانتا ہے تو بس اسی سے۔ نہ کسی دیوتا سے ‘ نہ کسی فرعون سے ‘ نہ کیو اللہ کے کسی مقرب سے (بہت سے مذاہب میں چاند اور سورج معبود ہیں یا معبود کے بیٹے کہلاتے ہیں (نعوذ باللہ) ۔ مصیبت جتنی سخت ہو انسان اتنا ہی شین قاف باندھتا ہے ‘ اتنا ہی عاجزی سے ہاتھ لمبے کرتا ہے۔ اتنا ہی زور دار معاہدے کرتا ہے کہ اے اللہ۔ اگر تو ہمیں اس آفت سے بچا لے تو ہم ضرور تیرا احسان مانتیں گے اور تیرے شکر گزار بندے بن جائیں گے۔ جب اللہ اس کی مشکل کشائی کردیتا ہے تو وہ پھر واپس اپنے پرانے مذہب کی طرف لوٹ جاتا ہے کسی اور کو مشکل کشا بنا لیتا ہے۔ پھر بتوں کی پوجا شروع ہوجاتی ہے۔ پھر تثلیث کے عقیدے زور پکڑ لیتے ہیں۔ پھر باد شاہ کی عظمتوں کی بندگی شرو ع ہوجاتی ہے۔ مکہ کے مشرکین کا بھی یہی حال تھا بار بار وہ آفتوں میں پھنستے اپنے تمام بتوں کو چھوڑ کر خوب گڑ گڑا کر اللہ سے دعائیں کرتے اور وفاداری کی قسمیں کھاتے ‘ خوب روتے اور چلاتے لیکن جب آفت ٹل جاتی تو کیسی احسان مندی ‘ کیسی شکر گزاری ‘ پھر دین آباء کی طرف پلٹ جاتے اور شرک میں مبتلا ہوجاتے ۔
Top