Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 51
وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاَنْذِرْ : اور ڈراویں بِهِ : اس سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَخَافُوْنَ : خوف رکھتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْشَرُوْٓا : کہ وہ جمع کیے جائیں گے اِلٰى : طرف (سامنے) رَبِّهِمْ : اپنا رب لَيْسَ : نہیں لَهُمْ : انکے لیے مِّنْ : کوئی دُوْنِهٖ : اس کے سوا وَلِيٌّ : کوئی حمایتی وَّلَا : اور نہ شَفِيْعٌ : سفارش کرنیوالا لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : بچتے رہیں
اور اے نبی ﷺ ! آپ اس قرآن کے ذریعہ ان لوگوں کو ڈرائیے جو اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جب وہ اپنے رب کے سامنے اس حال میں پیش کئے جائیں گے کہ نہ ان کا کوئی مدد گار ہوگا نہ سفارشی۔ شاید کہ وہ اللہ سے زیادہ ڈرنے والے ہوں۔
لغات القرآن : آیت نمبر 51 تا 55 : انذر (توڈرادے) یخافون ( وہ خوف رکھتے ہیں) ‘ ان یحشروا ( یہ کہ وہ جمع کیے جائیں گے) ‘ شفیع (سفارشی) لاتطرد (تو نہ نکال) یدعون ( وہ پکارتے ہیں) ‘ الغدوۃ ( صبح کے وقت) ‘ العشی (شام کے وقت۔ رات کے وقت) ‘ وجہ ( ذات۔ چہرہ) ماعلیک ( تیرے اوپر ذمہ داری نہیں ہے ) ‘ فتنا ( ہم نے آزمایا) ‘ من اللہ ( اللہ نے احسان کیا) ‘ کتب (لکھ لیا گیا) سوء ا (برائی۔ گناہ) بجھالۃ (نادانی سے ۔ ناوقفیت میں) تستبین (ظاہر ہوجانا۔ کھل جانا) سبیل المجرمین ( مجرموں کا راستہ) ۔ تشریح : آیت نمبر 51 تا 55 : ان آیات میں تبلیغ کے پانچ بنیادی اصول بتائے گئے ہیں۔ (1) تبلغی تو ان لوگوں کو بھی کرنی ہے جو کٹر کافر ہیں اور کسی طرح بات مان کر نہیں دیتے۔ مگر مبلغ کو چاہیے کہ زیادہ وقت اور محنت ان لوگوں پر لگائے جو قیامت کے دن کا خوف رکھتے ہیں۔ جو شخص قیامت کا خوف رکھے گا وہ لازماً توحید پر ‘ رسالت پر ‘ فرشتوں پر ‘ کتب الٰہیہ پر ‘ سزا و جزا پر ایمان رکھے گا۔ تبلیغ صاحب ایمان کو صاحب تقویٰ بناتی ہے۔ تقوی کا راستہ جہاد اور ایسے مجاہدین پیدا کرنا ہے جو اسلام کی سچائیوں کو لے کر آگے بڑھتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنے آپ سے دور کرنا نہیں ہے جو ایمان لاچکے اور دن رات اپنے پروردگار کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ ان کی دل جوئی کرنا ہے۔ (2) امیر لوگ کافروں کی وجہ سے غریب مومنوں کی دل شکنی نہ کریں۔ (3) اپنے حلقہ اثر میں السلام علیکم پھیلانا ‘ ملنا جلنا اور سماجی تعلقات رکھنا ‘ کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ تم سلام کو پھیلائو۔ (4) غلطیوں اور قصوروں کو معاف کرنا کہ اللہ بھی مغفرت والا اور رحمت والا ہے بشرطیکہ گناہ گار توبہ کرلے اور آئندہ کے لئے اپنی اصلاح کرلے ۔ (5) اسلام کے پیغام کو کھول کر بیان کرنا۔ معنی و مطلب کو ذہن نشین کرانا اور مجرموں پر منطق اور پیغام پہنچانے کے حق کو ادا کرنا۔ ان آیات کا شان نزول یہ ہے کہ کفار مکہ کے چند امیر کبیر سردار ابو طالب کے پاس پہنچے اور کہا ہم لوگ آپ کے بھتیجے کی محفل میں بیٹھنا اور باتیں سننا چاہتے ہیں مگر وہاں وہ لوگ بیٹھے رہتے ہیں جو غریب اور مفلس ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ تو کبھی ہمارے غلام تھے۔ تم اپنیبھتیجے سے کہو کہ جب ہم لوگ آئیں تو ان مفلسوں کو اپنی محفل سے نکال دیا کریں۔ تاکہ ہم بیٹھ کر باتیں سن سکیں۔ جب یہ بات ابو طالب نے حضور ﷺ کو سنائی تو وہاں پر حضرت عمر بھی موجود تھے۔ انہوں نے رائے دی کہ آپ یہ بھی کر کے دیکھئے۔ یہ مومنین تو اپنے لوگ ہیں۔ برا نہیں مانیں گے۔ اور اس طرح ممکن ہے اللہ کا پیغام کسی کا فرسردار کے میں اثر کر جائے۔ اس وقت یہ وحی نازل ہوئی جس میں سختی سے حضور ﷺ کو اس بات سے منع کردیا گیا۔ حضرت عمر فاروق ؓ اپنی رائے کی غلطی دیکھ کر سخت پریشان اور پشیمان ہوئے۔ ان کی تسلی کے لئے یہ آیات نازل ہوئیں کہ اللہ نے رحمت کرنا اپنے آپ پر لازم کرلیا ہے تم میں سے جو کوئی نادانی میں آکر گناہ کر بیٹھے۔ پھر اس کے بعد تو بہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ بھی مغفرت اور رحمت سے پیش آئے گا۔ ان آیات نے ایک بات کی خاص وضاحت کردی ہے۔ وہ یہ کہ دولت و ریاست اور ایمان وتقویٰ کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ جیسا ہر پیغمبر کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ ایمان لانے والے مخلصین اور مجاہدین میں اولین اور سابقین کا درجہ اکثر و بیشتر غریبوں کو حاصل رہا ہے۔ اور اکثر و بشترو دولت و دینار رحمت نہیں زحمت ثابت ہوئی ہے اس نے لوگوں کو اللہ سے غافل کردیا ہے۔ اس نے نخوت اور شان غرور پیدا کی ہے۔ اس نے اللہ کی راہ میں مال ‘ وقت اور جان کی قربانی سے روکا ہے۔ دولت مند کفار کی طرف سے اسی قسم کی خواہش حضرت نوح (علیہ السلام) کی خدمت میں بھی پیش کی گئی تھی کہ آپ ان ارذل لوگوں کو نکا ل دیجئے تو پھر ہم لوگ آکر بیٹھیں گے۔ اس کا جواب حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ دیا تھا کہ مجھے کیا معلوم کہ کون ارذل کون اشرف ہے اس کا تعلق ایمان سے ہے اور ایمان کا حال اللہ کو معلوم ہے۔ کچھ یہی جواب ان آیات میں حضور ﷺ کی زبانی بھی دلوایا گیا ہے کہ جو وہ کریں گے ان کے حساب کا بوجھ آپ پر نہیں ہے۔ اور جو آپ کریں گے اس کے حساب ا بوجھ ان پر نہیں ہے۔ ان آیات میں توبہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ممکن ہے اس کا تعلق حضرت عمر کے واقعہ سے ہو لیکن اس کے لب و لہجہ کا عموم ہر زمان ومکان کو محیط ہے۔ اگر کوئی بھی شخص بغاوت میں آکر نہیں نادانی ‘ حماقت یا غفلت یا وقتی لغزش میں آکر کوئی گناہ صغیرہ کرے تو بعید ہیں کہ اللہ تعالیٰ معاف کردے کیونکہ رحمت کرنا اس نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے۔ ان آیات میں حضور نبی کریم ﷺ سے کہا جارہا ہے کہ کسی شخص سے مجلسی یا سماجی دوری نہ برتیں خواہ وہ وقتی ہو یا سیاسی ہو صرف اس بنیاد پر کہ وہ غریب ہے۔ بلکہ تمام امیر و غریب مو منین سے تعلقات کو شیریں اور شیریں تر بنائیں جس کا اولین مظاہرہ السلام علیکم ہے کہ ہم تم سے کوئی ضد نہیں رکھتے اور ہم تمہاری سلامتی کے لئے دعا گو ہیں یہاں بھی اور وہاں بھی۔
Top