Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 15
قُلْ اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : میں ڈرتا ہوں اِنْ : اگر عَصَيْتُ : میں نافرمانی کروں رَبِّيْ : اپنا رب عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ عَظِيْمٍ : بڑا دن
(اے نبی ﷺ ! ) کہہ دیجئے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں قیامت کے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
لغات القرآن : آیت نمبر 15 تا 20 : عصیت ( میں نے نافرمانی کی) یصرف (پھیردیا گیا۔ ہٹادیا گیا) ‘ یومئذ (اس دن) ‘ یمسسک (پہنچائے تجھے) ‘ کاشف (کھولنے والا) ‘ القاھر (زبردست۔ (اللہ کی ایک صفت ہے) ‘ ای شیء ( کونسی چیز) ‘ اکبر (زیادہ بڑا۔ زیادہ بڑی) ‘ اوحی (وحی کی گئی) ‘ الی (میری طرف) ‘ انذر (ڈرایا گیا) ‘ من بلغ (جس کو پہنچا) ‘ اخری ( دوسرے۔ دوسری) ‘ اننی بریء ( بیشک میں دور ہوں۔ میں بیزار ہوں) ‘ یعرفون ( وہ پہچانتے ہیں) ابناء ھم (اپنے بیٹوں کو) ۔ تشریح : آیت نمبر 15 تا 20 : ان آیات میں عذاب کی ہولناکی کا ذکر ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی زبانی یہ کہلوا کر کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو عذاب دوزخ سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جتادیا کہ ثواب و عذاب کا معیار صرف اور صرف اللہ کی فرماں برداری یا نافرمانی ‘ اسلام یا کفر ہے۔ یہاں کوئی فرزندی ‘ کوئی طرفداری ‘ کوئی رعایت نہیں ۔ یہ بھی جتادیا کہ قیامت ضرور آئے گی۔ جس دن جزا او سزا کا فیصلہ ہوگا۔ آیات 15 تا 18 میں اللہ تعالیٰ کی قہاری اور غفاری کی شان نہایت تو ازن اور تناسب کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ خوف اور امید قدم بہ قدم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کیا ہے ؟ عذاب کا ٹلنا اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ کیونکہ جس سے عذا ب ٹل گیا وہ اللہ کی رحمت اور جنت میں داخل ہوجائے گا۔ آیت نمبر 17 میں فرمایا گیا ہے اگر اللہ نے عذاب کا فیصلہ کردیا تو کوئی اور دیوی ‘ دیوتا ‘ فرزند اور مقرب خاص بچانے والا نہیں ہے۔ ‘ اگر اس نے ثواب کا فیصلہ کردیا تو یہ اس کی مہربانی اور قدرت ہے۔ آیت 18 میں اسی بات کو دوسرے انداز میں کہا گیا ہے۔ کہ وہ قادر مطلق بھی ہے اور صاحب حکمت اور صاحب خیر بھی۔ اس سے کوئی راز چھپا ہوا نہیں ہے۔ وہ جو کچھ کرتا ہے حکمت کے تحت کرتا ہے۔ اور وہ انپے فے صل کو نافذ کرنے کی تمام طاقتیں رکھتا ہے۔ ان آیات نے خصوصاً آیت 15 نے تمام ایمان والوں میں لرزہ پیدا کردیا تھا اور وہ خاص طور پر چوکنے ہوگئے تھے ۔ صحیح احادیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے ” اے اللہ ! آپ جو دینا چاہیں اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ اور جس چیز کو آپ نے روک دیا اسے کوئی دینے والا نہیں ہے۔ اور کسی کوشش والے کی کوشش آپ کے ہاں نفع نہیں دے سکتی “۔ آگے کی آیات کا نزول ایک خاص واقعہ سے ہے۔ مشرکین مکہ کا ایک وفد حضور ﷺ کے پاس آیا اور کہا آپ جو اللہ کے رسول ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اس پر آپ کا گواہ کون ہے ؟ یہودو نصاریٰ میں کوئی شخص بھی آپ کی تصدیق نہیں کرتا۔ اس پر آیات نمبر 19 اور 20 ناز ل ہوئیں۔ اللہ کی گواہی سے مراد قرآن ہے۔ وحی خفی ہے اور وہ معجزات ہیں جو آپ سے صادر ہوئے۔ سب سے بڑی گواہی تو خود قرآن ہے جو آپ پر بذریعہ وحی نازل کیا گیا۔ اس کے بعد مشرکین مکہ کے وفد کو للکارا گیا کہ کیا واقعی تم لوگ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ معبودیت میں دوسرے بھی شریک ہیں ؟ ۔ حضور ﷺ کی زبان سے کہلوایا گیا کہ کہ دیجئے اللہ ایک ہی ہے اور میرا اس شرک سے کوئی تعلق نہیں ہے جس میں تم لوگ مبتلا ہو۔ اس وفد کا یہ کہنا ک یہودو نصاریٰ میں کوئی بھی آپ کی تصدیق نہیں کرتا۔ تو اس کا جواب یہ دیا کہ حضور ﷺ کی قطعی پہچان حلیہ اور کمالات کی پیشین گوئیاں توریت اور انجیل میں موجود ہیں۔ چناچہ یہ اہل کتاب آپ کو پیغمبر کی حیثیت سے اچھی طرح پہچانتے ہیں جس طرح باپ اپنے بیٹے کو پہچانتا ہے ظاہری طور پر بیں اور باطنی طور پر بھی ‘ اسی طرح یہ اہل کتاب آپ کو پیغمبر اسلام کی حیثیت سے اچھی طرح پہچانتے ہیں مگر یہ ان کی دنیاوی مصلحتیں ہیں جو ان کو تصدیق اقرار اور تسلیم سے روک رہی ہیں۔ وہ ایمان نہیں لاتے تو نہ لائیں۔ اگر وہ ایمان نہ لائے تو دوزخ ان کا مقدر ہے۔ آگے کی آیت بھی اسی سلسلے میں ہے۔
Top