Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 109
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَئِنْ جَآءَتْهُمْ اٰیَةٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِهَا١ؕ قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ مَا یُشْعِرُكُمْ١ۙ اَنَّهَاۤ اِذَا جَآءَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
وَاَقْسَمُوْا : اور وہ قسم کھاتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ : تاکید سے لَئِنْ : البتہ اگر جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آئے اٰيَةٌ : کوئی نشانی لَّيُؤْمِنُنَّ : تو ضرور ایمان لائیں گے بِهَا : اس پر قُلْ : آپ کہہ دیں اِنَّمَا : کہ الْاٰيٰتُ : نشانیاں عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس وَمَا : اور کیا يُشْعِرُكُمْ : خبر نہیں اَنَّهَآ : کہ وہ اِذَا جَآءَتْ : جب آئیں لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہ لائیں گے
یہ لوگ اللہ کی بڑی بڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر کوئی اور معجزہ ہمیں دکھایا جائے تو ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ (اے نبی ﷺ ! ) آپ کہہ دیجئے کہ نشانی اور معجزات تو اللہ کے پاس ہیں۔ اور ( اے ایمان والو ! ) تمہیں کیا خبر ہے کہ جب وہ نشانی آجائے گی تب بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 109 تا 113 : اقسموا ( انہوں نے قسم کھائی) جھد ایمان (زبردست قسمیں۔ مضبوط قسمیں) ‘ ماشعرکم (تم نہیں سمجھتے) نقلب ( ہم پلٹ دیں گے) افئدۃ (فواد) دل ‘ اول مرۃ ( پہلی مرتبہ) یعمھون ( وہ سرگرداں ہیں۔ وہ بہک رہے ہیں) کلم (باتیں کیں۔ کلام کیا) ۔ الانس (انسان) زخرف (ظاہر۔ چمکدار چیز۔ بناوٹی) غرور ( دھوکہ) لتصغی (تاکہ جھکیں) لیرضوہ ( تاکہ وہ اس کو پسند کرلیں) لیقترفوا (تاکہ وہ کرتے رہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 109 تا 113 : پچھلی آیات میں ذکر تھا کہ کفار و مشرکین ‘ نشانیوں ‘ معجزوں کے باوجود ایمان نہ لائے۔ اب ذکر ہے کہ انہوں نے اپنی سیاہ ضمیری میں ایک نیا روپ بدلا ہے یعنی حضور ﷺ سے نئے معجزات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ اگر آپ ﷺ ” کوہ صفا “ کو سونے کا بنادیں تو ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ اس پر انہوں نے بڑی تاکید کے ساتھ اللہ کی قسمیں کھائیں۔ جناب رسالت مآب ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی بھی خواہش تھی کہ یہ معجزہ رونما ہوجائے تاکہ گمراہ لوگوں کو نجات کا راستہ مل جائے۔ آپ ﷺ دعا کو ہاتھ اٹھانے والے تھے کہ حضرت جبرئیل یہ وحی لے کر نازل ہوئے۔ ان آیات نے حضور ﷺ پر اور تمام مسلمانوں پر یہ حقیقت حال کھول کر رکھ دی کہ ان کا یہ نیا مطالبہ ہر قسم کی سخت سے سخت قسم کے باوجود دھوکا اور فریب ہے۔ یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ کوہ صفا کو سونے کا بنا دینا تو کیا۔ اگر فرشتے ظاہر ہو کر ان سے کلام کرنے لگیں۔ اگر مردے قبر سے نکل کر اٹھ کھڑے ہوں بلکہ اگر سارے مردے زندہ ہو کر ان کے سامنے آکھڑے ہوں۔ تب بھی یہ اپنے مکر اور چال میں ویسے ہی لگے رہیں گے جیسے اب تک لگے رہے ہیں۔ اس لئے ان کو سمجھانے کے لئے یہ جواب دید یجئے کہ معجزہ دکھانا نبی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہ اختیار سراسر اللہ کے پاس ہے۔ اس طرح ان کے پر فریب مطالبے کی اخلاقی اعتبار سے نفی کردی جائے بلکہ ان آیات کی تبلیغ کے ذریعہ ان کے ڈھول کا پول کھول دیا جائے۔ انہیں بھی معلوم ہوجائے کہ یہاں فریب اور سازش چل نہیں سکتی۔ اور اللہ تو دلوں کے اندر کا راز تک جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ہم نے اسی طرح ہمیشہ شرارت پسند انسانوں اور سرکش جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو دھوکے اور فریب کی بنائوٹی باتیں سکھاتے ہیں۔ اور اگر آپ کا رب چاہتا تو یہ لوگ ایسا کام نہ کرتے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ (اے نبی ﷺ ! ) کار نبوت آسان نہیں ہے۔ بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس میں سو فیصد ایمان ‘ لگن ‘ قربانی ‘ محنت ‘ خلوص ‘ تبلیغ ‘ عقل و تدبیر ‘ حکمت و قیادت ‘ صبر و استقامت ‘ جہاد و قتال کی ضرورت ہے۔ پیغام حق کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔ جس کے نتیجہ میں دوست کم اور دشمان زیادہ ہوں گے اور دشمن بھی وہ جن کے ہاتھ میں ملک و مال ‘ حکومت ‘ فوج ‘ جیل اور پھانسی خانہ سب کچھ ہے آپ کی تحریک کا وارجن بادشاہوں ‘ امیروں ‘ وزیروں ‘ ساہوکاروں ‘ تاجروں ‘ خوشامدیوں ‘ نادانوں ‘ اندھی تقلید پرستوں اور دنیا پرستوں پر پڑے گا وہ سب کے سب ایک محاذ بن کر مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور آپ ﷺ کی اس تحریک کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو شیاطین جن وانس کے اس عظیم محاذ سے ٹکرانا ہوگا۔ اگر اللہ چاہتا تو تکوینی طور پر ان تمام دشمنان اسلام کو پیدائشی صاحب ایمان بنادیتا یا آپ ﷺ کے لئے نرم چارہ بنادیتا کہ ادھر آپ ﷺ نے دو چار معجزے دکھلائے دو چار تبلیغیں کیں ‘ جنت اور جہنم کی زبانی تصویر کھینچہ اور وہ فوج درفوج آپ ﷺ کے ہاتھ پر ایمان لے آئیں گے۔ اور آپ ﷺ ہلدی لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے کامیابی کے قلعہ میں پرچم لہراتے ہوئے داخل ہوجائیں گے۔ مگر یہ اس کی مصلحت نہیں ہے۔ یہاں ہر ابراہیم (علیہ السلام) کو نمرود سے ‘ ہر موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون سے ‘ ہر عیسیٰ کو یہود سے دو دوہاتھ کرنے یہ پڑتے ہیں۔ آپ ﷺ کی مخالفت میں بھی بہت بھاری جتھا کھڑا ہو رہا ہے۔ اس کی مصلحت نہیں ہے کہ سراسر معجزہ پر معجزہ دکھا کر کافروں کو رام کردیا جائے۔ معجزوں کی اپنی اہمیت ہے لیکن ان کی بھی ایک حد ہے اور وہ حد گذرچ کی۔ اب پیغام حق کے دلائل کو دیکھ کر جو شخص حق و صادقت کی بات مانتا ہے وہ مانے ورنہ اپنے لئے جہنم میں ٹھکانا بنا لے۔
Top