Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 105
وَ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ وَ لِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَ لِنُبَیِّنَهٗ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُصَرِّفُ : ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں وَلِيَقُوْلُوْا : اور تاکہ وہ کہیں دَرَسْتَ : تونے پڑھا ہے وَلِنُبَيِّنَهٗ : اور تاکہ ہم واضح کردیں لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : جاننے والوں کے لیے
ہم اسی طرح دلائل کو مختلف پہلوئوں سے بیان کرتے ہیں۔ تاکہ جاہل و نادان لوگ کہنے لگیں کہ آپ نے یہ باتیں کس سے پڑھی ہیں ؟ اور دانش مند اس سے روشنی حاصل کریں۔
لغات القرآن : آیت نمبر 105 تا 107 : درست ( تو نے کسی سے) پڑھا ہے۔ تشریح : آیت نمبر 105 تا 107 : توحید و رسالت پر واضح دلائل پچھلی آیات میں پیش کئے گئے۔ ان میں بصارت اور بصیرت دونوں کو جھنجوڑا گیا جس کے نتیجے میں لوگوں کی دو واضح قسمیں سامنے آئیں۔ ایک وہ جو دین اسلام سے متاثر ہوئے اور کفر و شرک چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوگئے۔ لیکن وہ ضدی ہٹ دھرم بر خود غلط طبقہ جسے نہ ماننا تھا نہ مانا اور نہ ماننے کا جو بہانہ ڈھونڈا وہ بھی بھونڈا یعنی اے نبی ﷺ ! یہ قرآن جو آپ پیش کررہے ہیں۔ یہ وحی الٰہی نہیں ہے۔ یہ تو آپ ﷺ کسی سے سن کر اور سیکھ کر لائے ہیں ‘ اور ہم لوگوں پر رعب ڈال رہے ہیں۔ (نعوذ باللہ) مگر وہ یہ بتانے سے معذور رہے کہ وہ کون سنانے والا اور سکھانے والا ہے۔ اگر کوئی ایسا ہے تو پھر کس نے دوسرے لوگوں کو روکا ہے کہ وہ بھی جا کر سنیں اور سیکھیں۔ سنانے اور سکھانے کا شبہ ایک یا دو یہودیوں پر کیا گیا مگر وہ جلدہی مرگئے۔ پھر بھی حضور ﷺ کی زبان مبارک پر وحی کا سلسلہ قائم رہا اور اسی آن بان شان سے۔ اس کے بعد حضور ﷺ مدینہ تشریف لے گئے اور وہاں بھی وحی کا سلسلہ قائم رہا اور اسی اہتمام سے۔ اس طرح اس شبہ کی بنیاد ہی نہ رہی۔ مگر جنہیں ضد پر اٹل رہنا تھا وہ پھر بھی سیدھے نہ ہوئے۔ ان آنکھ والوں اور عقل والوں نے دیکھا نہ سمجھا کہ یہ وہ ہدایت کا سامان ہے ‘ یہ وہ غیب اور مشاہدہ کی باتیں ہیں جنہیں آج تک کوئی فلاسفر سقراط بقراط پیش نہ کرسکا۔ اور ایک امی محض کی زبان سے۔ وہ جس نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی اس قسم کا کلام پیش نہ کیا تھا۔ ایسا فصیح وبلیغ کلام جس میں قیامت تک آنے والے جن و بشر کو بار بار چیلنج کیا گیا کہ قرآن کی چھوٹی سے چھوٹی سورت جیسا کلام لے آئیں۔ اور اس دوبارہ چیلنج کے ساتھ کہ تم ایسا ہرگز نہ کرسکو گے۔ اور واقعی وہ ایسا نہ کرسکے۔ مگر جو بد نصیب تھا وہ بد نصیب ازل رہا۔ قرآن کا خطاب اب نبی ﷺ کی طرف پلٹتا ہے کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے ماننے والے اپنے طور پر وحی الٰہی کی پیروی کرتے رہیں۔ آپ ﷺ توحید کا پیغام سناتے ہیں۔ یہاں تکہ مومن ہونے والے مومن ہوجائیں گے اور کافر و مشرک رہنے والے کافر و مشرک ہی رہیں گے۔ آپ ﷺ تو محض ایک پیغامبر ہیں۔ آپ داروغہ بنا کر مسلط نہیں کردیئے گئے ہیں کہ زبردستی سب کو مومن بناتے پھریں۔ ان اعمال کا حساب آپ ﷺ سے نہیں لیا جائے گا۔ ان آیات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اے نبی ﷺ اگر اللہ چاہتا تو تکوینی طور پر سب کو مومن بنا دیتا۔ نہ رسول کی ضرورت ہوتی نہ قرآن کی۔ نہ قیامت کی نہ پل صراط کی۔ نہ جنت کی نہ جہنم کی۔ ایک مشینی میکا نیکی عمل ہوتا جس طرح جانوروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر قلب و ذہن کا امتحان کس طرح ہوتا اور ابلیس کی ضرورت کیا پڑتی۔ پھر کون رسالت پر ایمان لاتا یا نہ لاتا۔ پھر کون توحید کو پکڑتا اور کون گمراہی کو۔ اگر سب کو کن فیکون کے تحت پیدائشی مستحکم مومن بنادیا جاتا تو پھر اس سارے تکلیف و اہتمام کی تکلیف کیوں مول لی جاتی۔
Top