Baseerat-e-Quran - Al-Waaqia : 57
نَحْنُ خَلَقْنٰكُمْ فَلَوْ لَا تُصَدِّقُوْنَ
نَحْنُ : ہم نے خَلَقْنٰكُمْ : پیدا کیا ہم نے تم کو فَلَوْلَا : پس کیوں نہیں تُصَدِّقُوْنَ : تم تصدیق کرتے ہو۔ تم یقین کرتے۔ سچ مانتے
ہم نے ہی تمہیں پیدا کیا ہے پھر تم یقین کیوں نہیں کرتے ؟
لغات القرآن آیت نمبر 57 تا 74 تمنون تم ٹپکاتے ہو۔ تحرثون تم کھیتی کرتے ہو۔ حطام چورہ چورہ۔ مغرمون تاوان بھرنے والے المزن بادل۔ اجاج کھارا۔ تورون تم سلگاتے ہ۔ تم جلاتے ہو۔ تشریح : آیت نمبر 57 تا 74 ماں کے پیٹ سے پیدا ہونا، زندگی اور موت، زمین سے کھیتی کا اگنا ابھرنا، بارش سے پانی کا برسنا اور ندی نالوں کی شکل اختیار کرنا، آگ اور اس سے ایندھن کا حاصل ہونا یہ سب اللہ کی وہ نعمتیں ہیں کہ اگر ان پر غور و فکر سے کام لیا جائے تو انسان کی جبین نیاز اللہ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوجائے گی۔ کیونکہ اسی نے اپنے رحم و کرم سے یہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں اور اگر وہ چاہے تو ان نعمتوں کو چھین بھی سکتا ہے۔ اگر وہ دنیا چاہے تو اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور اگر نہ دینا چاہے تو اس کو کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔ فرمایا کہ اس نے رزق عطا فرمایا جس کے حاصل کرنے میں انسان کو زیندہ محنت نہیں کرنا پڑی بلکہ ایک کام وہ کرتا ہے اور نناوے کام اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مثلاً نطفہ جو ایک معملوی سا بےجان قطرہ ہے وہ میاں بیوی کے تعلق کے بعد رحم مادر میں ٹھہر جاتا ہے جو اللہ کے نظام کے تحت آہستہ آہستہ انسانی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ ہڈیاں ، گوشت پوست بننے کے بعد اللہ اس کو جیسی صورت شکل دینا چاہتا ہے وہ بن جاتی ہے اللہ کی یہ قدرت و طاقت ہے کہ وہ نطفہ کو کوئی اور شکل صورت دے سکتا تھا لیکن یہ اس کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے انسانی شکل و صورت عطا فرما دی۔ رحم مادر میں یہ سارا عمل محض اللہ کے نظام کے تحت تکمیل تک پہنچا ہے اس میں انسانی کوشش کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ آدمی کے دنیا میں قدم رکھنے کے بعد اس کی عمر کتنی ہے وہ کب تک دنیا میں زندہ رہے گا اور کب اس دنیا سے رخصت ہوجائے گا یہ سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ایک ڈاکٹر اور حکیم بھی اس وقت تک اپنی جدوجہد کرسکتا ہے جب تک آدمی زندہ ہے لیکن اس کے مرنے کے بعد ہر ایک بڑے سے بڑا ماہر ڈاکٹر اور انسانی ہاتھوں سے بنائی گیء دوائیں سب بیکار ہوجاتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی پیدئاش اور موت کا سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت سے ہم کنار کردیتا ہے۔ اسی طرح زندگی گذارنے کے تمام اسباب کا بھی یہی حال ہے کہ ان میں انسانی کوششوں کا دخل بہت کم ہے مثلاً جب آدمی کھیتی اگانا چاتہا ہے تو زمین کو تیار کر کے اس میں دانہ کھاد اور پانی ڈالتا ہے لیکن اس کے بعد اس دانہ کا زمین میں ایک عرصہ تک محفوظ رہنا، نرم و نازک کونپل کا سخت زمین کو پھاڑ کر باہر نکلنا، پھر ایک پودے کی شکل اختیار کرنا اور پھل دینا یہ سب انسانی ہاتھوں کا کمال نہیں ہے بلکہ اللہ کی کامل قدرت ہے کہ وہ ایک بےجان نطفہ کو انسان اور ایک بےجان دانے سے زندگی کو پیدا کرتا ہے۔ فرمایا کہ تم اس پودے کو ابھرتے دیکھتے ہو اور یہ بھی جانتے ہو کہ یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے پھر تم اس میں کیوں شرک کرتے ہو کہ آدمی کے مرجانے کے بعد اللہ اس کو دوبارہ زندہ نہ کرے گا ؟ یقینا اللہ اپنے حکم سے تمام مردوں کو دوبارہ زندہ کر کے میدان حشر میں جمع فرمائے گا اور پھر ہر ایک کا حساب کتاب ہوگا۔ فرمایا کہ یہ اللہ کا کرم ہے کہ وہ چند دانوں سے ایک لہلہاتا کھیت اور بلند وبالا درخت اور پودے بنا دیتا ہے اگر وہ چاہے تو انسانی کوششوں کو ایک لمحے میں راکھ کا ڈھیر بنا دے پھر انسان کو پچھتانے کے سوا اور کوئی کام نہ ہوگا اور وہ یہ کہہ اٹھے گا کہ سارے موسم میں محنت کرنے کے باوجود میں تو سخت نقصان اور گھاٹے میں آگ یا اور بجائے کچھ ملنے کے دوسروں کا قرض دار ہوگیا۔ فرمایا کہ انسان کی محنت اور اس کے بہترین نتائج یہ بھی اللہ یہ کے ہاتھ میں ہیں اس کے سوا کوئی کار ساز اور مشکل کشا نہیں ہے۔ فرمایا کہ یہ پانی جس کو تم پیتے ہو جمع کر کے رکھتے ہو جس سے اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے ہو یہ کس نے پیدا کیا ؟ درحقیقت اللہ نے ایک ایسا نظام بنا دیا ہے کہ سمندر جیسے کڑوے اور نمکین پانی میں حرارت اور گرمی پیدا ہوتی ہے اس سے ایک بھاپ بن کر بلندیوں کی طرحف بادلوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور پھر اللہ جہاں چاتہا ہے اس کو برسا دیتا ہے۔ یہ اس کی قدرت کا کمال ہے کہ کڑوے اور نمکین پانی سے ابھرنے والی بھاپ میں کوئی کڑواہٹ نہیں ہوتی بلکہ بادلوں سے برسنے والا پانی میٹھا ہوتا ہے کیونکہ اگر یہ پانی نمکین اور کڑوا ہوتا تو نہ انسانوں کے کام آتا اور نہ کھیتیاں ابھرتیں پھر اس پانی سے ندی نالے بنتے ہیں جو دریاؤں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور وہی پانی پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف بن کر جم جاتا ہے جس سے انساین ضروریات اور اس کے کھیتوں کو زندگی ملتی ہے۔ اگر اللہ اس پانی کو کھارا بھی بنا دیتا تو انسانی زندگی ویران ہوجاتی لہٰذا اس پانی کے پیدا کرنے میں بھی انسان کا کوئی دخل نہیں ہے یہ سب اللہ کی قدرت سے انسان کو نعمت کے طور پر عطا کیا گیا ہے۔ فرمایا کہ آگ اور اس کا درخت کس نے پیدا کیا اللہ ہی نے سبز درختوں سے ایک آگ (آکسیجن) پیدا کی، پت ھروں اور سوکھی لکڑیوں میں آگ کا عنصر رکھ دیا۔ پہلے جب انسان کا ابتدائی دور تھا تو وہ پتھروں کو رگڑکر یا بعض درختوں کو ٹکرا کر اس میں دبی ہوئی چنگاریوں کو ابھارتا اور اس سے آگ بنا لیتا تھا۔ پھر آدمی نے ترقی کی اور اب تو انسان نے آگ کی بہت سی شکلیں معلوم کرلیں لیکن سب چیزوں میں صلاحیت اللہ ہی نے پیدا کی ہے اگر وہ ان میں آگ کی صلاحیت پیدا نہ کرتا تو آگ کیسے پیدا ہوتی۔ اب آدمی آگ سلگاتا ہے اپنے گھر کے چولہے جلاتا ہے اپنی بھٹیاں روشن کرتا ہے اور اپنے کارخانے اسی آگ سے چلاتا ہے یہ سارا ایندھن اور آگ اللہ ہی نے پیدا کی ہے جس سے مقیم ہو یا مسافر ہر ایک فائدہ حاصل کر ہا ہے۔ آخر میں فرمایا کہ اے ہمارے حبیب ﷺ ! آپ کائنات کی ہر چیز کو پیدا کرنے والے رب کی حمد و ثنا کیجیے اور یہ اعلان عام کردیجیے کہ اللہ ہی ہر چیز کا خلاق، مالک اور ان تمام عیبوں سے پاک ہے جو کفار و مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
Top