Baseerat-e-Quran - Al-Furqaan : 61
تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ جَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا ہے الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّجَعَلَ : اور بنایا فِيْهَا : اس میں سِرٰجًا : چراغ (سورج) وَّقَمَرًا : اور چاند مُّنِيْرًا : روشن
وہ بہت برکت والا ہے جس نے آسمان میں برج (بڑے بڑے ستارے) بنائے اور اس نے اس میں چمکتا سورج اور روشن چاند بنایا۔
لغات القرآن : آیت نمبر 61 تا 66 : بروج (برج) (قلعہ۔ بڑے بڑے ستارے) ‘ سراج (چراغ۔ سورج) ‘ قمرمنیر (روشن چاند) ‘ خلفۃ (ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے) ‘ عباد الرحمن ( اللہ کے بندے۔ رحمن کے بندے) ‘ یمشون ( چلتے ہیں) ‘ ھون ( وقار۔ آہستہ اور نرمی) ‘ خاطب (خطاب کیا۔ گفتگو کی) ‘ سلام (سلام۔ سلامتی) ‘ یبیتون ( رات گزارتے ہیں) ‘ اصرف ( دور کردے پھیردے) ‘ غرام ( لپٹ جانا۔ چمٹ جانا) ‘ ساءت (برا) ‘ مستقر (ٹھکانا) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 61 تا 66 : آپ نے اس سے پہلی آیات میں کفار کا یہ انداز ملاحظہ کرلیا ہے کہ وہ اپنے حقیقی معبود اللہ تعالیٰ کو بھول کر بےحقیقت چیزوں کو معبود بنائے بیٹھے ہیں۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ رحمن کی بندگی کریں تو وہ اس سے منہ پھیر کر نفرت و حقارت سے کہتے ہیں کہ کون رحمن ؟ ہم تو نہیں جانتے کہ رحمن کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی مختلف نشانیوں کو بیان کر کے فرمایا کہ رحمن وہ و ہے جس نے اس پورے نظام کائنات کو سنبھال رکھا ہے۔ وہ بڑی برکت و رحمت والی ذات ہے جس نے نہ صرف زمین و آسمان کو پیدا کیا بلکہ اس نے بڑے بڑے ستارے اور سیارے بنائے۔ چاند اور سورج سے زمین و آسمان کے اندھیرے دور کرکے روشنیاں پیدا کی ہیں۔ اس نے دن اور رات کے نظام کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ رات کو دن کے پیچھے اور دن کو رات کے پیچھے لگادیا ہے جو لگا تار ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں۔ اس طرح انسان دن میں محنت مزدوری کرکے اپنی روزی پیدا کرتا ہے اور دن بھر تھکنے کے بعد رات کو آرام کرتا ہے جس سے وہ تازہ دم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاند اور سورج کی منزلیں بنائی ہیں جن میں یہ سیارے حرکت کررہے ہیں جس کے نتیجے میں دن اور رات کے علاوہ موسم پیدا ہوتے ہیں کبھی سردی کبھی گرمی کبھی جاڑا اور کبھی براسات اور یہ نظام بھی اس طرح مرتب انداز پر چل رہا ہے کہ دنیا کی گھڑیاں اور حساب غلط ہوسکتے ہیں لیکن اللہ نے چاند ‘ سورج کے لئے جو بھی وقت مرتب کردیا ہے اس میں ایک سیکنڈ کی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ سورج کس رفتار سے چل رہا ہے ‘ چاند کن منزلوں سے گذررہا ہے ‘ سیارے کس رقتار سے گھوم رہے ہیں ‘ موسم بننے کے اسباب کیا ہیں اگر ان چیزوں کو مشینوں کی آنکھوں سے دیکھا جائے تو انسان بےساختہ پکارا ٹھتا ہے ” وہ ذات بڑی برکتوں والی ہے جو پیدا کرنے میں سب سے بہتر ذات ہے “ ان تمام چیزوں میں اللہ نے انسان کے لئے بڑے فائدے رکھے ہیں گر فائدے حاصل کرتے وقت وہ اس بات کو بھول جاتا ہے کہ یہ سب کچھ کس نے پیدا کیا ہے اور شیطان کے بہکائے میں آکر بےحقیقت مٹی ‘ پتھر اور لکڑی کے بتوں کو اپنا مبعود سمجھنے لگتا ہے۔ اگر ان تمام چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے ذرا بھی اس بات پر دھیا دے لے کہ ہمارا مالک و آقا صرف اللہ ہے تو یہی توحید ہے اسی کا نام علم و عرفان ہے۔ لیکن اگر انسان کائنات کی ان نشانیوں کو دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود چمگادڑ کی طرح آنکھیں بند کرلے تو وہ بڑی سے بڑی حقیقت پر گذرنے کے باوجود ان سے لا علم اور بیخبر رہتا ہے۔ فرمایا کہ یہ کائنات میں ہر طرح کی تبدیلیاں اس لئے ہیں تاکہ انسانوں کو فائدہ پہنچے اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر اداکر سکے۔ کفار نے پوچھا تھا کہ رحمن کون ہے ؟ اللہ نے اس کا جواب دے دیا تھا۔ یہاں فرمایا کہ رحمن کے بندے کون ہیں ؟ ان کی کیا صفات اور خصویات ہیں۔ (1) فرمایا کہ رحمن کے بندے وہ ہیں کہ جب وہ زمین پر چلتے ہیں تکبر ‘ غرور اور بڑائی کے انداز پر نہیں بلکہ نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ چلتے ہیں۔ ان کی ہر ادا میں تواضح اور عاجزی ہوتی ہے۔ (2) فرمایا کہ وہ جاہلوں سے الجھنے کے بجائے یہ کہہ کر گذر جاتے ہیں کہ بھائی تم پر سلامتی ہو مراد یہ ہے کہ رحمن کے بندے تو خود کوئی جہالت و نادانی کا کام کرتے ہیں اور نہ جاہلوں کی سطح پر اتر کر بات کرتے ہیں بلکہ نہایت وقار ‘ عاجزی اور انکساری سے اللہ کے بندوں میں رلے ملے رہتے ہیں اور جب کوئی جاہل اپنی جہالت کی سطح پر اتر کر بات کرتا ہے تو اسے سے الجھنے کے بجائے یہ کہ کر گذر جاتے ہیں کہ میں تمہارے لئے سلامتی چاہتا ہوں۔ (3) تیسری صفت رحمن کے بندوں کی یہ ہے کہ وہ راتوں کو اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرتے ہیں اور طویل رکوع و سجود کرکے اپنی راتوں کو زندہ کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ راتوں کو اس طرح اللہ کے سامنے قیام فرماتے تھے کہ طویل قیام کیوجہ سے پاؤں پر ورم آجاتا اور کبھی کبھی تو وہ ورم پھٹ کر رسنے لگتا تھا۔ آپ کے سجدے طویل ترین ہوتے تھے یہاں تک کہ ام المو منین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ کبھی کبھی تو میں یہ سمجھتی کہ کہیں آپ کی روح پرواز تو نہیں کرگئی۔ میں پاؤں کا انگوٹھا ہلا کر دیکھتی تو اطمینان ہوتا تھا۔ کاش نبی کریم ﷺ کی اس سنت اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں ہم بھی راتوں کو اللہ کی بار گاہ میں کھڑے ہو کر اور سجدے کر کے رحمن کے سچے بندے بن جائیں۔ (4) وہ رحمن کے بندے اللہ سے یہی دوخراست کرتے ہیں کہ الیہ ! ہمیں اس جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھئے گا جو ہمیشہ کی تباہی اور بدترین ٹھکانا ہے۔ رحمن کے بندوں کی یہ چار صفات ان آیات میں بیان کی گئی ہیں۔ بقیہ صفات کا ذکر اس کے بعد کی آیات میں فرمایا گیا ہے۔
Top