Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَقُولُ : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللہِ : اللہ پر وَ بالْيَوْمِ : اور دن پر الْآخِرِ : آخرت وَ مَا هُمْ : اور نہیں وہ بِمُؤْمِنِينَ : ایمان لانے والے
لوگوں میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ مومنوں میں سے نہیں ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 8 تا 16 (الناس): لو گ ، انسان، آدمی۔ (یقول): وہ کہتا ہے ، اردو میں اس کا ترجمہ ” امنا “ کی وجہ سے اس طرح کیا جائے گا، ” وہ کہتے ہیں۔ ” (امنا): ہم ایمان لے آئے۔ (یوم آخر): آخری دن، قیامت کا دن۔ (یخدعون): اور یخدعون کے الفاظ ” خدع “ سے بنے ہیں دھوکہ دینا، دل میں بری بات چھپا کر بظاہر اچھا بننے کی کوشش کرنا تا کہ دوسرے اس سے دھوکہ کھا جائیں۔ (انفس): نفس کی جمع ہے۔ جان، ذات شخصیت۔ (ما یشعرون): وہ شعور نہیں رکھتے، انہیں سمجھ نہیں ہے، بیخبر ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی حماقت میں مبتلا ہیں مگر ان کو اس کا احساس اور خبر نہیں ہے۔ (مرض): بیماری ، بیماری ایک تو وہ ہوتی ہے جو انسان کی بےاعتدالیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جس کو محسوس کیا جاسکتا ہے لیکن عام طور پر روحانی بیماری سے انسان آنکھیں بند کئے رکھتا ہے۔ یہاں روحانی بیماری ہی مراد ہے۔ (زاد): زیادہ کیا، رسول مکرم ﷺ اور اہل ایمان صحابہ ؓ کو ترقی دے کر اللہ نے ان کے حسد کو اور بڑھا دیا۔ یا ان کی رسی کو اور دراز کردیا، ان کو ڈھیل دے دی۔ (الیم) : یہ لفظ الم سے بنا ہے ، دردناک ، انتہائی تکلیف دینے والیچیز۔ (یکذبون): یہ لفظ ” کذب “ سے بنا ہے جھوٹ، غلط بیانی، حقیقت کے خلاف ، نقصان پہنچانے والا، یعنی وہ جھوٹ بکتے ہیں۔ (قیل): کہا گیا، بتایا گیا۔ (فساد): تباہی ، بربادی۔ انسان زبان اور ہاتھ سے فساد مچاتا ہے، کبھی کبھی انسان فساد کرتا ہے مگر وہ اپنے خیال میں اس کو اپنا بڑا کارنامہ سمجھتا ہے۔ اللہ نے یہاں اسی سے روکا ہے۔ (مصلحون ): اصلاح کرنے والے، خیر خواہی اور بھلائی کرنے والے۔ (شعور): عقل، سمجھ۔ (انؤمن ): کیا ہم ایمان لائیں ؟ ۔ اس میں صحابہ کرام ؓ کو (نعوذ بااللہ) حقیر اور کم تر سمجھتے ہوئے ایسا کہتے تھے کہ ہم جیسے عزت اور دولت والے ان جیسے کمزوروں کی طرح ایمان لائیں۔ (السفھاء) : (سفیھ) کے معنی آتے ہیں احمق، ناسمجھ، ناعاقبت اندیش ، جو آگے کی نہ سوچتا ہو۔ (لقوا): وہ ملے، ملاقات کی۔ (خلوا): وہ تنہا ہوئے، اکیلے ہوئے۔ (مستھزءون): مذاق کرنے والے۔ (یستھزء): وہ مذاق کرتا ہے۔ وہ مذاق اڑاتا ہے۔ اس جگہ دونوں معنی لیے جاسکتے ہیں۔ (یمد): وہ کھینچتا ہے۔ (طغیان ): سرکشی کرنا، سر اٹھانا، اسی سے ہمارے ہاں یہ لفظ طغیانی کے معنی میں آتا ہے۔ ہم کہتے کہ سمندر میں طغیانی آگئی پانی اونچا اونچا ہوگیا۔ (یعمھون): عمہ اندھا بن جانا، اندھاپن۔ (الضللۃ): گمراہی ، راستہ کھو دینا، بھٹک جانا، یہ لفظ ہدایت کے بالمقابل آتا ہے ماربحت ۔ ۔۔ نفع نہ دیا، اس جگہ فمار بحت تجارتھم سے مراد ہے ان کو ان کی تجارت نفع نہ دے گی۔ تشریح : آیت نمبر 8 تا 16 جیسا کہ خلاصہ کلام میں اس بات کو بتا دیا گیا ہے کہ منافق وہ لوگ ہیں جو ظاہری طور پر مسلمان بنے رہتے ہیں۔ جو کچھ زبان سے کہتے ہیں اسے دل سے نہیں مانتے اور جو دل میں رکھتے ہیں اسے زبان پر نہیں لاتے ۔ ان کا انجام کافروں سے بھی زیادہ اندوہناک ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم میں فرمایا گیا ہے کہ ” منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے “ یعنی کافر تو اپنے کفر کی سزا کو بھگتیں گے لیکن منافق کو اس سے بھی زیادہ بڑی سزا دی جائے گی۔ ۔۔ ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک کافر اور مشرک تو اپنے کفرو شرک میں کھلا ہوا دشمن ہے اس کا حملہ اور خطرہ سامنے کی طرف سے ہوگا جس سے بچنا زیادہ آسان ہے لیکن آستین کے سانپ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں جو اس طرح ڈس لیتے ہیں کہ پتہ بھی نہیں چلتا اور دوسرے اس کے زہر سے تباہ ہوجاتے ہیں۔ ۔۔ ۔ جو اپنے آپ کو ظاہری طور پر مسلمان کہتے اور کہلاتے ہیں لیکن پس پردہ وہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور اپنے دھو کے اور فریب کے جال بنتے رہتے ہیں۔ اس سے بھی آگے کی بات یہ ہے کہ وہ ایمان کے لحاظ سے اس قدر کمزور ہوتے ہیں کہ وہ صرف اللہ کے بندوں ہی کو غلط فہمی میں مبتلا نہیں رکھتے بلکہ وہ اللہ کو بھی اپنے طرز عمل اور روش زندگی سے دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا انجام کافروں سے بھی زیادہ ہیبت ناک ہونا کسی تعجب کی بات نہیں ہے۔ آج کے اس دور میں بھی اسلام اور مسلمانوں کو کافروں اور دشمنان اسلام سے اتنا بڑا خطرہ نہیں ہے جتنا ان لوگوں سے ہے جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے آستین کا سانپ بنے ہوئے ہیں، وہ لوگ جو اس ” ترقی یافتہ “ دور میں چند رسمی باتوں اور تھوڑے سے من پسند عمل اور نیک کاموں کے سوا اسلام کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو ” ضروری نہیں سمجھتے “ ایسے لوگ پہلے بھی تھے، آج بھی ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ جن کا کام یہ ہے یہ ان کے ہاتھوں، زبانوں اور عمل سے سوائے فساد کے اور کچھ بھی ظاہر نہیں ہوتا وہ جس کو قوم کی اصلاح کا نام دیتے ہیں وہ لاشعوری یا شعوری طور پر دین و دنیا کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایمان والے، ایمان دار لوگ، نیک اور نیکیوں پر چلنے والے، دین اسلام اور مسلمانوں کے لئے اپنا سب کچھ لٹا دینے والے بےوقوف، ناسمجھ، بےعقل ، ناعاقبت اندیش، دیوانے اور معاشرے کے چھوٹے لوگ شمار ہوتے ہیں (نعوذ باللہ) اس کے برخلاف وہ لوگ جو دن رات گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، رشوت خور، جواری، شراب خور اور آخرت سے بیخبر لوگ وہ بہت اچھے اعلیٰ مقام رکھنے والے باعزت اور سمجھ دار لوگ سمجھے جاتے ہیں جن کا کام یہ ہے کہ جب وہ مجلسوں اور محفلوں میں بیٹھ کر دین کی باتیں کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کا مخلص کوئی نہیں ہے۔ لیکن جب وہ اپنے کاروبار زندگی یا تنہائیوں میں اپنے یار دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں ان کا رنگ ہی دوسرا ہوتا ہے اب وہ اسی دین کا مذاق اڑا کردیں اور دین داروں کو اپنے مذاق کا نشانہ بناتے ہیں۔ اللہ نے ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا ہے کہ اللہ خود ان کی زندگیوں کو مذاق بنا دے گا لیکن ابھی ان کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔ فرمایا کہ ایسے لوگ گھاٹے کے سوداگر ہیں جو روشنیوں کو چھوڑ کر اندھیروں کو اپنا رہے ہیں اور جو ایمان کا راستہ چھوڑ کر کفر و نفاق کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ نہ ان کو اس دنیا میں کچھ ہاتھ آئے گا، نہ قبر کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں اور نہ آخرت ہی میں ان کو راحتیں نصیب ہوں گی۔
Top