Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 2
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ١ۛۖۚ فِیْهِ١ۛۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَۙ
ذٰلِكَ
: وہ / یہ
الْكِتٰبُ
: کتاب ہے
لَا
: نہیں
رَيْبَ
: کوئی شک
فِيْهِ
: اس میں
ھُدًى
: ہدایت ہے
لِّلْمُتَّقِيْنَ
: واسطے ان کے جو متقی ہیں
یہ وہ کتاب ہے جس میں شک نہیں ہے۔ ان کے لئے ہدایت ہے جو تقوی والے ہیں
“ ذلک الکتب لا ریب فیہ ” ترجمہ : یہ وہ کتاب ہے جس میں شک و شبہ نہیں ہے۔ اسلام کی بنیاد ان ابدی اصولوں پر رکھی گئی ہے جسے انسان کی عقل سلیم تسلیم کرتی ہے۔ قرآن مجید کے دلائل اس قدر مضبوط ہیں کہ ان میں شک و شبہ، نفسیاتی الجھنوں اور قلب کی بےچینیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ عقل اس کو یقینی طور پر قبول کرتی ہے۔ جس کتاب میں شک و شبہ نہ ہو “ وہی اللہ کی کتاب ہے ” لہٰذا یہ قرآن کریم ہر طرح کے شک و شبہ ، قلبی اضطراب اور نفسیاتی الجھنوں سے پاک ہے پورا قرآن حکیم پڑھنے کے بعد اس میں کوئی بات ایسی نہیں ملے گی جس میں شک و شبہ یا تردد کی گنجائش ہو۔ اگر ذرا غور کیا جائے تو اس بات کو سمجھنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ انسان جو بھی علم اور معلومات حاصل کرتا ہے عام طور پر اس کی بنیاد مشاہدہ پر ہوتی ہے وہ جس طرح کسی چیز کو دیکھتا ہے اس کو اسی طرح بیان کرد یتا ہے اس کا علم ، معلومات اور مشاہدہ تبدیل ہوتا ہے تو بڑے بڑے اصول بھی تبدیل ہوجایا کرتے ہیں جیسے تقریباً دو ہزار سال تک انسان کی معلومات یہ تھی کہ زمین ساکن ہے اور آسمان ، چاند، سورج اور ستارے زمین کے اردگرد گھوم رہے ہیں۔ لیکن محض ایک دور بین کی ایجاد نے انسان کے سوچے ہوئے اس دو ہزار سال کے فلسفہ کو الٹ کر رکھ دیا اور انسان نے معلوم کرلیا کہ زمین تو خود سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ بعض حضرات نے تو اس فلسفہ کو اپنی علمی کتابوں تک میں داخل کر کے قرآن مجید کے حوالے سے آسمان ، چاند اور سورج کو بھی زمین کے گرد گھما دیا۔ حالانکہ قرآن کریم اور احادیث رسول اللہ ﷺ میں تو کہیں بھی یہ بات موجود نہیں ہے کہ زمین ساکن ہے اور آسمان اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس علم کی بنیاد مشاہدہ پر ہوگی وہ اصول کبھی ابدی اصول نہیں کہلا سکتے کیونکہ جیسے ہی انسان کا مشاہدہ تبدیل ہوگا۔ اصول بھی بدل جائیں گے ۔ لیکن اللہ نے جس طرح اصول کو بیان فرما دیا چونکہ اس کی بنیاد مشاہدہ پر نہیں ہے اور وہ اصول اس علیم وخبیر ذات کی طرف سے ہیں جس نے انسانی عقلوں کو پیدا کیا ہے تو اس میں تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا کلام قرآن مجید سچائیوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے کہ حالات اور مشاہدہ کی تبدیلی سے اس میں کوئی تبدیلی ممکن ہی نہیں ہوسکتی۔ قرآن مجید کی ابتداء ” لاریب “ سے کر کے اہل ایمان کو اور ساری دنیا کو بتا دیا گیا کہ وہ ” کتاب ہدایت “ جس کو تم شروع کر رہے ہو اس کی بنیاد یقین پر ہے شک و شبہ پر نہیں ہے۔ الغرض سورة فاتحہ میں اللہ نے یہ طریقہ سکھایا تھا کہ اے لوگوں تم اپنے اللہ سے ” صراط مستقیم “ یعنی زندگی گزارنے کا وہ راستہ مانگو جس پر اس دنیا میں چل کر تمہیں آخرت کی ابدی زندگی کی کامیابیاں نصیب ہو سکیں اور ان بری راہوں سے بچ سکو جن پر چل کر سوائے دنیا اور آخرت کی تباہی کے اور کچھ نہیں مل سکتا۔ جب اللہ کے بندے نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں یہ درخواست پیش کی تو اللہ نے اس کے سامنے قرآن کریم رکھ کر یہ فرما دیا کہ یہ ہے وہ کتاب زندگی جو تمہاری رہبر و رہنما ہے اس پر چلو گے تو تمہیں تمہاری منزل مل جائے گی۔ لیکن اگر تم نے اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے بہت سے راستے اختیار کر لئے تو تم اپنی منزل سے بھٹک جاؤ گے۔ ابھی تک دو باتیں سامنے آئی ہیں۔ (1) قرآن کریم کی بنیاد یقین پر ہے۔ (2): یہ ان لوگوں کے لئے ہدایت و رہنمائی ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ ھدی۔ ۔۔ ۔ ہدایت ہے : ھدی (ہ د ی) ترجمہ۔ ۔۔ ۔ منزل کی راہ بتانا، منزل تک پہنچا دینا، ہدایت ، رہنمائی ، روشنی ، اس قدر صاف، واضح اور نمایاں روشنی جس کی چمک میں کسی قسم کی پیچیدگی ، ایچ پیچ اور الجھاؤ نہ ہو۔ ” ھدی “ کے اس ترجمہ میں دو معنی بہت واضح ہیں۔ (1) منزل کی راہ بتانا۔ (2) اور منزل تک پہنچا دینا۔ یعنی اللہ کا پاک کلام منزل تک پہنچنے کے اصول بتاتا ہے اور اللہ کے رسول اپنے عمل اور کردار کی بلندی سے اپنے ماننے والوں کو ان کی سچی منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس بات کو اس مثال سے سمجھنا آسان ہوگا۔ فرض کیجئے ایک شخص کو کسی ایسی جگہ پہنچنا ہے جس سے وہ واقف نہیں ہے۔ وہ کسی سے راستہ پوچھتا ہے وہ بتا دیتا ہے کہ اس اس طرح جاؤ تو اپنی منزل تک پہنچ جاؤ گے وہ شخص اس کے بتائے ہوئے راستے پر چل پڑتا ہے۔ اس میں یہ امکان ہے کہ وہ اپنی منزل تک پہنچ بھی سکے گا یا نہیں۔ لیکن اگر وہی شخص جس سے راستہ معلوم کیا ہے وہ اس کو اپنے ساتھ اپنی سواری پر بٹھا کر اس کی منزل تک پہنچا دیتا ہے تو اس کا پہنچنا بھی آسان ہوگا اور یقینی بھی۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو کتاب ہدایت دے کر بھیجا ہے تا کہ وہ بھٹکے ہوئے انسانوں کو ہدایت کا راستہ دکھائیں اور ان کو آخرت کی منزل تک پہنچا کر اپنا فرض پورا کردیں۔ اللہ کی اسی سنت پر بہت سے رسول اور نبی تشریف لاتے رہے اور انسانوں کو گمراہی کے راستے سے ہدایت پر لاتے رہے۔ اللہ نے اپنی آخری کتاب اپنے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل فرمائی جس کے ذریعہ آپ نے ایمان لانے والوں کو دنیا و آخرت کی سچی منزل تک پہنچا یا۔ چونکہ یہ آخری کتاب اور آخری رسول ہیں اس لیے اللہ نے اس کی حفاظت کا وہ انتظام فرمایا جو اس سے پہلے کتابوں کے لئے ضروری نہ تھا۔ (1) اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اس کلام کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ (2) تئیس سال میں تھوڑا تھوڑا کر کے قرآن کو نازل کیا گیا تا کہ وہ آسانی سے یاد ہوجائے اور مومنوں کے سینے اس قرآن کے امین بن جائیں۔ (3) نبی کریم ﷺ کی سیرت کو ایک بہترین نمونہ زندگی بنا کر اس کو دنیا اور آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنا دیا گیا تا کہ آپ کی سیرت میں ڈھلنے والے لوگ بھی ساری دنیا کے لئے بےمثال بن جائیں۔ (4) آپ ﷺ نے مختصر مدت میں اپنے قول و عمل سے قرآن حکیم کی ایک ایک آیت کی عملی تفسیر کر کے لاکھو پاکیزہ نفوس انسانوں کو قرآن و سنت کا پیکر بنا دیا۔ (5) آپ ﷺ کے وہ جاں نثار صحابہ ؓ جو نزول قرآن کے امین اور نبی مکرم ﷺ کے قول و عمل کے شاہد و گواہ ہیں وہ ہدایت پا کر اس مقام تک پہنچ گئے جہاں ان کے متعلق آپ نے فرما دیا کہ میں نے تئیس سال میں جن صحابہ ؓ کو راہ ہدایت دکھائی ہے وہ ستاروں کی طرح روشن ہیں زندگی کی تاریک راہوں میں ان کی روشنی میں چلنے والے ہی منزل تک آسانی سے پہنچ جائیں گے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کے دامن کو بھی تھام لوگے ہدایت پا جاؤ گے۔ (6) اللہ نے صحابہ کی زندگی کو (معیار حق و صداقت کی ) کسوٹی بنا دیا اور کفار، مشرکین اور یہودو نصاریٰ سمیت قیامت تک آنے والے تمام انسانوں سے فرما دیا کہ اگر تم ان صحابہ رسول ﷺ کی طرح ایمان لاؤ گے تو ہدایت حاصل کرلو گے اور اگر اس سے منہ پھیر لوگے تو یہ تمہاری ضد اور ہٹ دھرمی ہوگی جس کے مقابلہ میں اللہ ان کے لئے کافی ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سچی ہدایت اللہ تعالیٰ کے کلام سے اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت و کردار سے اور آپ کی تیار کی ہوئی جماعت صحابہ کرام ؓ سے ہی ممکن ہے۔ یہی وہ صراط مستقیم ہے جس پر چل کر دنیا اور آخرت کی کامیابیاں نصیب ہو سکتی ہیں۔ ہدایت دینا اللہ کی طرف سے ہے لیکن اللہ کا قانون یہ ہے کہ : (1) وہ ہدایت کے راستے پر چلانے کے لئے جبر اور زبردستی نہیں کرتا۔ (2) وہ ہدایت کے دروازے کسی کے لئے بند نہیں کرتا۔ (3) وہ کسی کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ لوگ گم راہی کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں تو ان سے ہدایت کی توفیق چھین لیا کرتا ہے۔ اللہ نے ہدایت اور گمراہی ، جنت اور جہنم کے راستے کی اپنے کلام میں پوری طرح وضاحت کردی ہے اور اس کے اچھے اور برے انجام کو بھی بتا دیا ہے۔ اب اگر کوئی شخص خود ہی گمراہ ہو کر اپنے لئے جہنم کا راستہ منتخب کرتا ہے تو یہ اس کی مرضی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اللہ کسی کے لئے توبہ کے دروازے اس وقت تک بند نہیں کرتا جب تک موت کے فرشتے سامنے نہ آجائیں۔ اسی طرح اللہ کسی کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ لوگ خود ہی اپنے لئے گمراہی کے گڑھے کھود لیتے ہیں۔ فرمایا کہ جس کا دل چاہے وہ صراط مستقیم کو منتخب کر کے دامن مصطفیٰ ﷺ کو تھام لے اور جس کا دل چاہے اپنے لئے جہنم کا گڑھا تیار کرلے، جو آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اندھوں کی طرح چلنے کے عادی ہوں ان کو کون ہدایت دے سکتا ہے۔ قرآن حکیم سراسر ہدایت، نور اور روشنی ہے مگر وہ ان کے لئے راہ نما ہے جو اس سے ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ لوگ جو ” فاسقین “ یعنی اللہ کے نافرمان ہیں ان کو اس قرآ سے کچھ نہیں ملتا۔ کیونکہ جو لوگ ظلم و ستم ، جہالت ، حماقت اور اندھے پن کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ان کو قرآن کی ہدایت سے کچھ بھی نہیں ملتا۔ اس کی مثال اس بارش کے پانی کی طرح ہے جو درختوں پر برستا ہے تو درختوں کی پھبن اور خوبصورتی میں اضافہ ہوجاتا ہے، پھولوں کے پودوں میں گرتا ہے تو خوشبو مہک اٹھتی ہے لیکن جب وہی بارش کا پانی کسی گندگی، گندے نالے یا گندے تالاب میں گرتا ہے تو بدبو اور پھیل جاتی ہے، وہی بارش کا پانی کسی پتھر پر گرتا ہے تو اس سے بہہ جاتا ہے اور کوئی سبزہ پیدا نہیں ہوتا۔ غور کیا جائے تو اس سب میں قصور بارش کے پانی کا نہیں ہے بلکہ زمین کا ہے۔ بارش کے پانی کا کام تو زمین کے اندر کی صلاحیتوں کو ابھارنا ہے۔ جیسی زمین ہوگی ویسے ہی اس کے اثرات ظاہر ہوں گے۔ قرآن کریم بارش کے صاف شفاف پانی کی طرح سے ہے اگر کسی نے اپنے دل کی زمین کو گندگی کا ڈھیر بنا رکھا ہے اور ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑا ہوا ہے تو قرآن پاک اس گندگی میں پھولوں کی خوشبو اور مہک پیدا نہیں کرتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے پاک کلام سے ہمیں ہدایت و رہنمائی کے اصول بتادئیے ہیں اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ اللہ کے محبوب رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ان اصولوں پر جس طرح عمل کر کے دکھائیں اور بتائیں وہی اللہ کی مرضی اور مراد ہے۔ ان تمام حقائق کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ہمیں قرآن کو سمجھنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں کی ضرورت نہیں ہے ” ہم قرآن کو اس کے الفاظ سے خود ہی سمجھ لیں گے اور خود ہی اپنے لیے نظام زندگی بنا لیں گے “ تو اس سے بڑا گمراہ اور کون ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وقت کے ان سامریوں اور گمراہوں سے محفوظ فرمائے۔ (آمین) المقتین : المقتین۔ ۔۔ ۔ المتقی کی جمع ہے (و۔ ق۔ ی) تقویٰ اختیار کرنے والے، ڈرنے والے، پرہیز گار، بچنے اور حفاظت کرنے والے۔ ھدی للمقتین یعنی یہ قرآن کریم ان لوگوں کے لئے ہدایت و رہنمائی ہے جو تقویٰ کے راستے پر چلتے ہیں۔ یہاں دو باتیں بنیادی طور پر سمجھ لی جائیں تو اس سے تقویٰ کا مطلب سمجھ لینا آسان ہوجائے گا۔ (1) ایک بات تو یہ ہے کہ قرآن کریم وہ عظیم کتاب ہے جس کے ہر لفظ کا مفہوم اتنا وسیع ہے کہ اس کا ترجمہ کسی دوسری زبان میں کرنا ممکن ہی نہیں ہے، اب مثلاً تقویٰ کا اردو میں ترجمہ عام طور پر ” ڈرنا “ کیا جاتا ہے حالانکہ اس لفظ کا یہ ترجمہ تقویٰ کے معنی کا حق ادا کر ہی نہیں سکتا وجہ یہ ہے کہ تقویٰ کی صحیح ترجمانی یہ ہے ” اللہ سے اس طرح ڈرنا کہ اس میں اللہ کی رحمت کی بھی پوری طرح امید شامل ہو “ اسی لئے ایمان کی صحیح تعریف یہ ہے الایمان بین الخوف والرجا یعنی ایمان تو ڈر اور امید کے درمیان کے راستے کو کہتے ہیں۔ (2) دوسری بات یہ ہے کہ یوں تو ہر لفظ کی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے مگر بعض الفاظ قوموں کی تقدیر بن جایا کرتے ہیں اور ان الفاظ کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسے ” الرہب “ اس کے معنی اور ” التقوی “ کے تقریباً ایک ہی معنی ہیں ” ڈرنا، خوف “ فرق صرف اتنا ہے کہ رہب ایسے ڈرنے کو کہتے ہیں جس میں خوف ہی خوف ہو اور اللہ کی رحمت سے کوئی امید نہ ہو۔ یہ وہ لفظ ہے جس کو یہود و نصاری نے گھڑ کر اپنا دین و ایمان بنا لیا تھا اور یہ سمجھ لیا تھا کہ اگر کسی کو اللہ تک پہنچنا ہے تو اس کو کو ساری دنیا سے کٹ کر جنگلوں میں جا کر اپنے معبود کو تلاش کرنا ہے اور اس کے لئے جو بھی تکلیف برداشت کرنا پڑے گی وہی محنت اور مشقت اس کو جنت کا حق دار بنا دے گی۔ اس غلط نظریہ نے ان کو ” رہبان “ (درویش) بنا دیا اور ” رہبانیت “ دنیا اور اس کی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر صرف چند عبادتوں میں لگ جانے کا نام بن گیا۔ اس رہبانیت کو انہوں نے اپنا مذہب بنا لیا تھا اور اسی کو دین داری سمجھنے لگے تھے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صاف صاف ارشاد فرمایا کہ ” رہبانیت کو ہم نے فرض نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود ہی اس کو گھڑ لیا تھا۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے رہبانیت سے سخت نفرت کا اظہار فرماتے ہوئے اس سے صحابہ کو روکا ہے کہ وہ یہود ونصاریٰ کے جیسے طریقے اختیار نہ کریں۔ امام راغب (علیہ السلام) نے ” رہبانیت “ کے معنی یہ لکھے ہیں۔ کسی شخص کا خوف سے عبادت میں لگ جانا اور اس میں غلو (حد سے بڑھ جانا) اختیار کرنا۔ علامہ محمود بن عمر زمخشری (علیہ السلام) کہتے ہیں ” راہبانیت “ راہبوں ( خوف سے دنیا چھوڑنے والوں) کے فعل کا نام ہے، بغیر افطار روزے رکھنا، ٹاٹ پہننا، گوشت نہ کھانا وغیرہ وغیرہ اس کی اصل رہب سے ہے (الفائق فی غریب الحدیث ) حضرت شاہ عبد القادر دہلوی (رح) رہبانیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ یہ فقیری اور ترک دنیا کی رسم نصاریٰ کی نکالی ہوئی رسم ہے ” جنگل میں تکیہ لگا کر بیٹھتے ، نہ بیوی رکھتے نہ بیٹا، نہ کھاتے نہ جوڑتے، محض عبادت میں لگے رہتے، خلق سے نہ ملتے اللہ نے بندوں پر یہ حکم نہیں رکھا (تفسیر موضح القرآن۔ سورة حدید) سنن ابی داؤد میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : ” اپنی جانوں پر سختی نہ کرو کہ اللہ تم پر سختی کرے گا، بلاشبہ ایک قوم (راہبوں کی جماعت مراد ہے ) نے اپنی جانوں پر سختی کی تو اللہ نے ان پر سختی کی چناچہ گرجاؤں اور دیروں میں ان کے بقایا ہیں۔ “ مسند امام بن حنبل (رح) میں حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک چھوٹی سی لڑائی میں شریک تھے ہم میں سے ایک شخص کا گزر ایک ایسے غار پر ہوا جہاں کچھ پانی اور کچھ سبزہ تھا، اس نے دل میں کہا کہ اگر میں یہیں رہ جاؤں اور دنیا سے کٹ کر (اللہ کی عبادت و بندگی میں لگا رہوں تو ) میرے لئے بہتر ہوگا۔ چناچہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کی اجازت مانگی، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے یہودیت یا نصرانیت دے کر نہیں بھیجا گیا میں ضیفیہ سمحہ (تمام الٹے سیدھے طریقوں سے ہٹ کر توحید کی طرف جھکا ہوا آسان راستہ) لے کر مبعوث ہوا یوں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے اللہ کی راہ میں نکلنا یا ایک شام نکلنا دنیا بھر سے بہتر ہے اور تم میں سے کسی ایک کا (جہاد کی ) صف میں کھڑے رہنا اس کی ساٹھ سال کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح) حضرت عثمان ابن مظعون ؓ سے نقل کیا گیا ہے کہ جب انہوں نے نبی کریم ﷺ سے رہبانیت یعنی ترک دنیا کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” میری امت کی رہبانیت مسجد میں بیٹھنا اور نماز کا انتظار کرنا ہے۔ “ اسی بناء پر فرمایا گیا ہے ” لا رہبانیۃ فی الاسلام “ اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ رہبانیت کے الفاظ کا صرف یہی اثر نہ تھا کہ انہوں نے ترک دنیا کردیا تھا بلکہ ان کے فلسفے کے مطابق ان کو ان کا معبود شہروں میں مل ہی نہیں سکتا تھا اس لیے وہ اپنی عبادت گاہیں شہر سے باہر بناتے تھے۔ اب جو ہم شہروں میں ان کے عبادت خانے دیکھتے ہیں وہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی نقل ہے ورنہ شہروں میں عبادت خانوں کا ان کے ہاں کوئی تصور ہی نہ تھا اس کے لئے اگر ان کی پچھلی عمارتوں کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کی حقیقت کھل کر سامنے آسکتی ہے ۔ ہندوؤں ، بدھسٹوں، یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ کے تنگ و تاریک اور شہروں سے باہر تاریخی عبادت خانے اس کے گواہ ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ” الرہب “ کے لفظ نے رہبان اور رہبانیت کو جنم دیا اور اس طرح انسان تہذیب و تمدن سے دور ہوگیا اور ترک دنیا کو اس نے سب سے بڑی عبادت سمجھ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی امت کو لفظ الرہب کی جگہ “ التقویٰ ” عطا فرمایا۔ تا کہ ان کو اللہ کا خوف تو ہو مگر وہ خوف اور ڈراتنا غالب نہ آجائے کہ انسانی تہذیب و تمدن ہی کا جنازہ نکل جائے۔ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے تقویٰ کو بنیاد قرار دیا ہے بلکہ زندگی کے تمام معاملات کو بالکل صحیح رکھنے کے لئے تقویٰ کی اہمیت کا اظہار فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ تقریباً دو سو مرتبہ استعمال کیا گیا ہے جس میں تقویٰ اختیار کر کے اپنی زندگی کے ہر معاملے کو درست کرنے کی تاکید کی گئی ہے خواہ اس کا تعلق تمدن ، تہذیب ، معاشرت، معیشت اور معاملات سے ہو یا عبادات سے ہو ہر چیز کی بنیاد تقویٰ کو قرار دیا گیا ہے۔ اس موقع پر ایک بات کی وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض لوگ علماء دین، صوفیائے کرام اور بزرگان دین کو بھی راہبوں کی صف میں لا کھڑا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان میں اور راہبوں میں کیا فرق ہے اور جس طرح ہم رہبانیت کو خلاف اسلام کہتے ہیں وہ ان بزرگوں کو اور ان کی بےبہا خدمات کو بھی خلاف شریعت کہتے ہیں۔ حالانکہ رہبانیت اور تصوف میں زمین و آسمانی کا فرق ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ یہ رہبانیت صرف اپنی ذات کو بنانے کی ایک کوشش ہے اس کے برخلاف صوفیائے کرام نے اپنی ذات کو مٹا کر دین کو زندگی عطا کی ہے یعنی وہ اسلام کی راہ میں خود مٹ گئے لیکن انہوں نے دین کو نہیں مٹنے دیا۔ آج ساری دنیا میں جہاں بھی مسلمان ہیں وہ نبی کریم ﷺ کے جاں نثار صحابہ کرام ؓ اولیاء اللہ، صوفیائے عظام ؓ اور علماء کرام (رح) کی بےلوث خدمات ہی کا صدقہ ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج دنیا بھر میں وہ ممالک جہاں مسلمان اپنی تلواریں لے کر نہیں گئے وہیں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعد میں آنے والوں نے ان بزرگوں کے مزارات کو کاروبار میں اور ان کی پاکیزہ زندگی کو الف لیلی کی داستانیں بنا کر ان کی خدمات پر پانی پھیر دیا اور آج ان بزرگوں کے مزارات دنیا کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئے ہیں۔ اور یہ بزرگان دین ساری زندگی جن باتوں کو منع کرتے رہے آج وہی ساری حرکتیں ان کے مزارات پر ہوتی ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ ہم موجودہ دور کے کاروباری لوگوں کو دیکھ کر ان بزرگوں سے نفرت کا اظہار کرنے لگیں جن کی خدمات دین کی عظمت کا نشان ہیں۔
Top