Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
وہ لوگ جو تم سے لڑتے ہیں تم اللہ کی راہ میں ان سے لڑو مگر کسی پر زیادتی نہ کرو۔ بیشک اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
لغات القرآن : آیت نمبر 190 تا 195 قاتلوا (لڑو (جہاد کرو) ۔ یقاتلون (جو لڑتے ہیں) ۔ لا یحب (پسند نہیں کرتا) ۔ المعتدین (حد سے بڑھنے والے) ۔ ثقفتموھم (تم ان کو پاؤ (ثقفتم، و ، ھم ) ۔ اخرجوا (نکالو) ۔ اشد (بڑھ کر ، شدید، زیادہ) ۔ انتھوا (وہ رک گئے) ۔ لا تکون (نہ رہے) ۔ لا عدوان (زیادتی نہ ہو) ۔ الشھرالحرام (عزت والے مہینے (رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم ان ) چار مہینوں میں اسلام سے پہلے بھی جنگ کو حرام سمجھا جاتا تھا اور مشرکین مکہ بھی اس کے پابند تھے نیز ابتداء اسلام میں بھی 7 ھ تک یہی قانون نافذ تھا) ۔ الحرمات (عزت کرنے میں) ۔ القصاص (برابری ہے (وہ احترام کرتے ہیں تو تم بھی احترام کرو) ۔ بمثل (اس جیسی) ۔ اعتدی (زیادتی کی ) ۔ انفقوا (خرچ کرو ) ۔ لا تلقوا (تم نہ ڈالو) ۔ التھلکۃ (ہلاکت، بربادی) ۔ احسنوا (نیکی کرو) ۔ تشریح : آیت نمبر 190 تا 195 مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں مسلمانوں کو عفو درگزر، برداشت اور صبر کی تلقین کی جاتی رہی۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب اگلے سا ل نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت وعمرہ کا ارادہ کیا تو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو اس کا شدید اندیشہ تھا کہ کفار مکہ کب اپنا وعدہ اور معاہدہ توڑ کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں اور ان کو نقصان پہنچا دیں۔ یہ اندیشے سب ہی کے دلوں میں تھے اس پر تین آیتیں نازل ہوئیں جن میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کو جہاد و قتال کی اجازت دے کر چند اصولی اور بنیادی باتیں بتائی گئی ہیں۔ فرمایا گیا کہ اے مومنو ! چونکہ یہ جہاد اللہ کی راہ میں ہے انتقام کی آگ بجھانے یا ملک گیری کی ہوس میں نہیں ہے اس لئے تم ان ہی سے جہاد و قتال کرو جوا للہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اگر وہ تم سے بیت اللہ میں لڑتے ہیں تو تم ان سے بیت اللہ میں لڑو۔ اگر وہ اشہرا لحرم یعنی حرمت والے مہینوں کا احترام نہیں کرتے تو تم بھی نہ کرو۔ اور اگر وہ جنگ کرتے ہیں تو تم بھی ان مہینوں میں ان سے جنگ کرو۔ اگر تمہاری طاقت و ہمت ہو تو تم بھی ان کو وہاں سے نکال باہر کرو جہاں سے انہوں نے تمہیں ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا لیکن ان تمام باتوں میں جس کا خاص طور پر خیال رکھنا ہے وہ یہ ہے کہ تم کسی پر زیادتی نہ کرنا، عورتوں، بچوں ، بیماروں، بوڑھوں، کمزوروں ، پر امن شہریوں، مذہبی پیشواؤں کو قتل نہ کرنا نہ ان کی کھیتیاں اجاڑنا نہ کسی کے گھر بار کو آگ لگانا۔ دوسرے یہ کہ جو مزاحمت کا راستہ چھوڑ دیں تم ان کو معاف کردینا۔ اصل چیز شرک اور کفر کا فتنہ ہے جس کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ پھینکنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ اس فتنہ کو مٹانے کے لئے طاقت کا معمولی استعمال کوئی گناہ یا زیادتی نہیں ہے تمہاری جدو جہد اس وقت تک جاری رہنی چاہئے جب تک یہ فتنہ مٹ کر اسلام کے ابدی نظام کو قائم کرنے کی راہیں صاف اور واضح نہ ہوجائیں ۔ یہ آیتیں ہیں جن میں طاقت کا جواب طاقت سے دینے کی اجازت دی گئی ہے ۔ مگر نبی کریم ﷺ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام ؓ کا دور اس بات پر گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ جہاد فی سبیل اللہ کیا ہے اور ان کی تلواریں ظالموں کی گردنیں کاٹنے اور مظلوموں کو ان کے بنیادی حقوق دلوانے کے لئے اٹھی ہیں۔ انہوں نے قرآن کریم کے ایک ایک اصول کی پوری طرح پابندی کر کے بتا دیا کہ دین اسلام ہی وہ دین ہے جس کی برکت سے انسانیت سکھ کا سانس لے سکتی ہے۔ آخر میں مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں یعنی جہاد میں خرچ کرنے سے مسلمانوں کو زندگی کی سچائیاں نصیب ہوں گی۔
Top