Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 188
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بالْبَاطِلِ : ناحق وَتُدْلُوْا : اور (نہ) پہنچاؤ بِهَآ : اس سے اِلَى الْحُكَّامِ : حاکموں تک لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھاؤ فَرِيْقًا : کوئی حصہ مِّنْ : سے اَمْوَالِ : مال النَّاسِ : لوگ بِالْاِثْمِ : گناہ سے وَاَنْتُمْ : اور تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
تم آپس میں ناجائز طریقے سے ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ اور نہ ان مالوں کو (رشوت کے طور پر ) حکام کی طرف لے جاؤ (تم چاہتے ہو کہ ) تمہیں ظلم و زیادتی کے ساتھ دوسروں کا مال بانٹ کرنا جائز طریقے سے کھانے کا موقع ہاتھ لگ جائے۔ حالانکہ تمہیں (اس کے نقصانات کا اچھی طرح) علم ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 188 لا تاکلوا (تم نہ کھاؤ) ۔ اموالکم (اپنوں کے مال) ۔ بالباطل (ناجائز طریقہ، حرام طریقہ) ۔ تدلوا (تم کھینچو) ۔ لتاکلوا (تا کہ تم کھا جاؤ) ۔ فریق (بانٹ کر، ٹکڑے کر کے ) ۔ تشریح : آیت نمبر 188 دین اسلام کی تعلیمات اس بات پر شاہد ہیں کہ رزق حلال حاصل کرنا اور اس کے لئے جدو جہد کرنا ایک اہم عبادت ہے۔ رزق حلال انسان کے دل کو نور سے بھر دیتا ہے اور ناجائز اور حرام ذریعوں سے کمائی ہوئی دولت سے انسان کا دل تاریک ہوجاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حلال روزی حاصل کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ جو شخص چالیس دن تک حلال روزی کھائے گا جس میں حرام کا شبہ تک نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو نور سے بھر دے گا۔ آپ ہی کا ارشاد ہے کہ حلال روزی کھایا کرو تا کہ تمہاری دعا قبول ہو۔ بعض لوگ ہو شیاری، چالاکی اور دھوکہ دہی سے دوسروں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں اور اسی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں حالانکہ ایسے لوگ سخت ناکام ہیں ۔ وہ لوگ وقتی طور سے چرب زبانی کے ذریعہ دوسروں کے حق غصب تو کرسکے ہیں لیکن ایسے لوگ خود اپنے ہاتھوں اپنی آخرت کی بربادی کا سامان کرتے ہیں۔ دوسروں کا مال ناجائز طریقہ سے کھانے کا رواج آج بھی ہے کہ وہ حکام کو رشوت دے کر اپنے حق میں فیصلے کرا لیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ان ناپاک ذریعوں سے حاصل ہونے والی دولت کو جہنم کی آگ سے تعبیر فرمایا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ “ میں تم جیسا انسان ہوں، تم میرے پاس جھگڑے چکانے کے سلسلہ میں آتے ہو۔ ممکن ہے تم میں سے ایک فریق زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کے حق میں فیصلہ دے دوں۔ اگر ایسے کسی معاملہ میں ، میں کسی کو اس کے بھائی کا حق دے دوں تو وہ اسے ہرگز نہ لے۔ بیشک وہ اس کے حق میں آگ کا ایک ٹکڑا ہے۔” قاضی شریح بعض دفعہ فیصلہ کرتے وقت فرمایا کرتے تھے کہ اے مدعی تیرے حق میں فیصلہ دے رہا ہوں۔ اگرچہ میں جانتا ہون کہ تو ظالم ہے ۔ لیکن میں گواہوں کی گواہی سے مجبور ہوں اور کوئی گنجائش میرے لئے نہیں ہے مگر یہ کہ میرا فیصلہ تیرے لئے حرام کو حلال نہیں کرسکتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ رزق حلال کے مقابلے میں رزق حرام کی دوڑ میں لگنے والا انسان وقتی طور سے کتنا ہی کامیاب کیوں نہ ہو بالاخر اس کا انجام بہت برا ہے، اس آیت میں یہی بات بتائی گئی ہے کہ : اے مومنو ! تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز اور حرام طریقے سے نہ کھاؤ اور نہ دوسروں کو رشوتیں دے کر ان کو حرام کا عادی بناؤ ورنہ تمہارا معاشرہ تباہ ہو کر رہ جائے گا اور آخرت کی ابدی نعمتوں سے محروم ہو کر رہ جاؤ گے۔ لغات القرآن : آیت نمبر 189 الاھلۃ (چاند) ۔ مواقیت (وقت) ۔ ظھور (ظہر) ، پیٹھ ، پشت) ۔ ابواب (باب ) دروازے۔
Top