Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 168
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے النَّاسُ : لوگ كُلُوْا : تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : اور پاک وَّلَا : اور نہ تَتَّبِعُوْا : پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اے لوگو ! زمین میں جو بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔
لغات القرآن : آیت نمبر 168 تا 17 6 کلو (کھاؤ) ۔ حلالا طیبا (حلال اور پاکیزہ چیزیں) ۔ خطوات (خطوۃ) قدم۔ ۔۔ (نشانات قدم) ۔ السوء (برائی) الفحشاء (فحش اور بےحیائی) ۔ الفینا (ہم نے پایا) ۔ اباؤنا (ہمارے باپ ، دادا) ۔ ینعق (چلاتا ہے) ۔ دعاء (پکار ) نداء (آواز) ۔ المیتۃ (مردار) الدم (خون) لحم الخنزیر (سور کا گوشت) اھل (پکارا گیا، لیا گیا) ۔ غیر باغ (بغاوت کرنے والا نہ ہو) لا عاد (نہ زیادتی کرنے والا ہو) ۔ بطون (بطن، پیٹ) لا یکلم (وہ بات نہ کرے گا) ۔ ما اصبر (کیسا صبر ہے) ۔ شقاق (ضد) ۔ بعید (دور) ۔ تشریح : آیت نمبر 168 تا 17 6 اللہ تعالیٰ نے بعض چیزوں کے استعمال سے منع کیا ہے اور بعض چیزوں کے استعمال کی اجازت دی ہے ، جن چیزوں کی اجازت دی ہے یعنی حلال کیا ہے وہ خوشگوار، پاکیزہ ، معتدل ، صحت بخش اور روح پرور ہیں اور جن چیزوں سے منع کیا ہے یعنی ان کو حرام قرار دیا ہے وہ سب کی سب کی روح، عقل، جسم اور اخلاق و کردار کو نقصان پہنچان والی اور بدکاری و بےحیائی کی راہ کھولنے والی ہیں۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے مومنو ! جن چیزوں کو ہم نے حلال قرار دیا ہے ان میں سے حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ، پاکیزہ چیزوں سے مراد یہ ہے کہ وہ چیزیں جو ظاہری گندگی، عقل اور اخلاق کو تباہ کرنے والی چیزیں ہیں ان کو استعمال نہ کرو کیونکہ ان چیزوں کا براہ راست اثر انسان کے کردار پر پڑتا ہے ۔ اس کے برخلاف وہ چیزیں جن میں ظاہری گندگی یا باطنی گندگی ہے جن سے انسانی کردار متاثر ہوتا ہے۔ ان کو نہ کھاؤ وہ انسان کے لئے حرام قرار دے دی گئی ہیں جیسے مردار جانور، بہتا ہوا خون، خنزیر کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے بجائے غیر اللہ کا نام لے کر اس کو غیر اللہ سے منسوب کیا گیا ہو قطعاً حرام ہیں۔ البتہ اگر کسی جگہ ایسی مجبوری ہو کہ ان مذکورہ چیزوں کے علاوہ کچھ ملتا ہی نہ ہو اور زندگی بچانے کا مسئلہ پیدا ہوجائے تب ان چیزوں کے استعمال کرسکتا ہے خون سے مراد خون پینا ہے کسی شدید مرض میں کوئی مومن ڈاکٹر اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر وہ کسی جانور کا کون پئے گا تو اس کی جان بچ سکتی ہے اس صورت میں تو کراہت بھی نہیں ہے اسی طرح اگر انسانی جان بچانے کے لئے کسی کو اپنا خون دیا جائے یا دوسرے کی جان بچانے کے لئے خون استعمال کیا جائے اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ شیطان کے نقش قدم پر چلنے کی ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو حلال قرار دیا ہے ان کو کھانے میں کوئی حر ج نہیں ہے لیکن بعض لوگوں نے خود سے بھی محض مشرکانہ توہمات کے تحت جن چیزوں کو حلال یا حرام قرار دے رکھا ہے ان کی شرعی اعتبار سے کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام قرار دیا جائے گا تو یقیناً یہ شیطان کے نقش قدم پر چلنے کے برابر ہوگا۔ ۔ فرمایا گیا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے ساتھ شیطان کی دشمنی کچھ ڈھکی چھپی نہیں ہے بلکہ وہ انسان کا کھلا دشمن ہے جو ہر آن اس کو اخلاقی شکست دینے کے چکر میں لگا رہتا ہے ۔ وہ انسان سے اپنی اس کھلی دشمنی کا اعلان اللہ کے سامنے کرچکا ہے جو دشمن اتنے کھلے الفاظ میں اپنی دشمنی کا اعلان کرچکا ہو اس کے ازلی دشمن ہونے میں کس کو شک ہو سکتا ہے اس لئے قرآن کریم میں اس کو ” عدومبین “ فرمایا گیا ہے یعنی کھلا ہوا دشمن اور فرمایا گیا کہ چھپے ہوئے دشمن سے دھوکا کھا جانا ممکن ہو سکتا ہے لیکن کھلے ہوئے دشمن سے دھوکہ کھاجانا ممکن ہو سکتا ہے لیکن کھلے ہوئے دشمن سے دھوکہ کھا جانا یہاں تک کہ اس کو اپنا دوست، اور کارساز بنا لینا، اس کے مشوروں پر چلنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ فرمایا شیطان نے لوگوں کو توحید کے راستے سے بھٹکانے کے لئے گمراہی کے راستوں کو بہت آسان بنا دیا ہے وہ بدترین بےحیائی اور بےشرمیوں کی طرف بڑے خوبصورت انداز سے دعوت دیتا ہے لیکن عقل مند وہی ہے جو اس کھلے ہوئے دشمن کے چکر میں نہ پھنسے ورنہ انسان اپنے تمام اعمال کو ضائع کر بیٹھے گا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے جن چیزوں کو حلال اور پاکیزہ بنا دیا ہے ان کو کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور جن چیزوں کے استعمال سے منع کیا ہے ایک مومن کو اس کے قریب بھی نہ جانا چاہئے۔ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے اس کے بہکائے میں آکر حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینا کسی طرح جائز اور مناسب نہیں ہے۔
Top