Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 90
وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًاۙ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے لَنْ نُّؤْمِنَ : ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے لَكَ : تجھ پر حَتّٰى : یہانتک کہ تَفْجُرَ : تو رواں کردے لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَرْضِ : زمین سے يَنْۢبُوْعًا : کوئی چشمہ
وہ کہتے ہیں کہ (اے نبی ﷺ ہم آپ کی بات کو اس وقت تک ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں جب تک ہمارے لئے زمین سے ایک چشمہ جاری نہ کردیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 90 تا 93 تفجر تو بہا دے۔ جاری کردے۔ ینبوع چشمہ۔ نخیل کھجور کا درخت۔ عنب انگور۔ تسقط تو گراتا ہے۔ زعمت تو نے گمان کیا۔ کسف ٹکڑے ٹکڑے۔ قبیل سامنے۔ بیت گھر۔ زخرف سونا، سنہرا۔ ترقی تو چڑہ گیا۔ رقی چڑھنا۔ نقروہ جس کو ہم پڑھیں گے۔ بشر انسان۔ تشریح : آیت نمبر 90 تا 93 اللہ تعالیٰ نے کفار کے بےجا مطالبات اور معجزات کی فرمائش پر ہمیشہ یہ فرمایا ہے کہ اللہ کی طاقتور قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے وہ چاہے تو ان کفار کی ہر فرمائش کو پورا کر دے لیکن یہ باتیں اللہ کی مصلحت کے خلاف ہیں۔ ان آیات میں بھی کفار و مشرکین کی ان ہی باتوں کو نقل کیا گیا ہے۔ وہ نبی کریم ﷺ سے یہ کہتے تھے کہ اے محمد ! ہم آپ کو اس وقت تک نبی ماننے کے لئے تیار نہیں ہے جب تک آپ (1) ہمارے سامنے زمین کو پھاڑ کر اس میں سے ابلتے پانی کا چشمہ جاری نہ کردیں (2) یا آپ کے لئے کھجوروں اور انگوروں کا ایک ایسا باغ ہو جس میں آپ پانی بہا دیں۔ (3) کبھی کہتے کہ جو کچھ تم کہتے ہو اس کے مطابق آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی ہم پر گرا دو ۔ (4) ان کا مطالبہ ہوتا کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کر کھڑا کر دو ۔ (5) تم آسمان پر چڑھ جاؤ اور وہاں سے کوئی ایسی کتاب لکھی ہوئی لے آؤ جسے ہم پڑھ سکیں۔ جب ایک تسلسل کے ساتھ کفار مکہ یہ باتیں کہتے تو نبی کریم ﷺ رنجیدہ ہوجاتے اور وحی کا انتظار فرماتے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ! آپ ان سے کہہ دیجیے کہ جس طرح تمام نبی اللہ کے بندے اور بشر تھے ایسے ہی میں بھی ہوں کسی بشر کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے جب چاہے معجزات دکھا دے۔ نہ یہ اس کی شان ہوتی ہے کہ وہ اپنے پروردگار سے لوگوں کی ان بچگانہ فرمائشوں کی درخواست کرے۔ انبیاء کرام دنیا میں اس لئے بھیجے جاتے ہیں کہ اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچا کر ان کی اصلاح کردیں اور جس راستہ سے وہ بھٹک گئے ہیں ان کو صراط مستقیم پر چلا دیں۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ آپ ان سے واضح الفاظ میں کہہ دیجیے کہ میں ایک بشر ہوں اور اللہ کے حکم سے اپنا فرض رسالت ادا کرتا رہوں گا۔ معجزات دکھانا یا نہ دکھانا یہ اللہ کی حکمت و مصلحت ہے اس میں میرا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ رسول کا کام صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ ہو اس دنیا میں آئے اور اللہ کا پیغام سنا کر واپس چلا جائے بلکہ پیغمبر کا کام ہے کہ پیغام الٰہی کے مطابق انسانی زندگی کی اصلاح کرے۔ وہ خود اپنی زندگی کو ایک مثال اور نمونہ بنا کر پیش کرے تاکہ اس کے مخاطب اور آنے اولی نسلیں اس سے فائدہ حاصل کرسکیں اور اس کے مطابق عمل کرسکیں۔ اگر اللہ کے کلام کے ساتھ کسی نبی کی ضرورت نہ ہوتی تو اس کے لئے فرشتے ہی کافی تھے جو اس دنیا میں آتے اور نہایت دیانتداری سے اللہ کا پیغام پہنچا کر چلے جاتے۔ اس کے برخلاف چونکہ نبی بشر ہوتے ہیں اس لئے ان پر ایسی کیفیات طاری کی جاتی ہیں جو ان کی امت کے لئے نمونہ عمل بن جاتی ہیں۔ یہ کام فرشتے کرتے تو بات صرف پیغام پہنچانے کی حد تک رہتی ان کی زندگی پر نہ بشری کیفیات آتیں اور نہ ان کی زندگی انسانوں کے لئے کوئی اسوہ یا نمونہ بنتی۔
Top