Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 78
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ١ؕ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا
اَقِمِ : قائم کریں آپ الصَّلٰوةَ : نماز لِدُلُوْكِ : ڈھلنے سے الشَّمْسِ : سورج اِلٰى : تک غَسَقِ : اندھیرا الَّيْلِ : رات وَ : اور قُرْاٰنَ : قرآن الْفَجْرِ : فجر (صبح) اِنَّ : بیشک قُرْاٰنَ الْفَجْرِ : صبح کا قرآن كَانَ : ہے مَشْهُوْدًا : حاضر کیا گیا
سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز قائم کیجیے اور فجر کے قرآن کا اہتمام کیجیے بیشک صبح کا قرآن (پڑھنے میں) فرشتے حاضر ہوتے ہیں
لغات القرآن آیت نمبر 78 تا 84 دلوک ڈھلنا، زوال۔ غسق اندھیرا۔ تھجد بیدار رہے۔ ذھق مٹ گیا۔ انعمنا ہم نے انعام کیا۔ اعرض منہ پھیرلیا۔ اعراض کیا۔ نا پہلو پھیرلیا۔ شاکلۃ طریقہ۔ اھدی زیادہ صحیح راستہ۔ تشریح : آیت نمبر 78 تا 84 ان آیات میں جو مضامین ارشاد فرمائے گئے ہیں ان کو سمھنے کے لئے اس اصول کو سامنے رکھنا ضروری ہے کہ قرآن کریم ایک مکمل کتاب زندگی ہے جس کے اصول، انوارات اور طریقے کامل و مکمل ہیں لیکن اللہ کی مراد اور انوارات اس وقت تک کھل کر سامنے نہیں آسکتے جب تک نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ یعنی احادیث رسول ﷺ کو سامنے نہ رکھا جائے۔ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم ہمارے لئے کافی ہے ہم خود اس کو سمجھ لیں گے ہمیں احادیث رسول کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو اس سے زیادہ غلط اور نامناسب بات اور کوئی نہیں ہوس کتی کیونکہ نہ تو ہم اہل زبان ہیں اور نہ ہمارے سامنے نبی کریم ﷺ کے ارشادات گرامی ہیں تو ہم محض لغت کو سامنے رکھ کر اس حقیقت تک کیسے پہنچ سکتے ہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ساتھ نبی کریم ﷺ کو بھیجا اور آپ نے تئیس سال میں ہر آیت کی تشریح اور وضاحت کر کے صحباہ کرام کی زندگی کا حصہ بنا دیا تھا جس نے ان صحابہ کرام کو آسمان نبوت کے جگمگاتے چاند، سورج اور ستارے بنا دیا تھا اگر یہ بات صحابہ کرام کہتے تو یہ ان کا مقام بھی تھا کیونکہ عربی زبان ان کی مادری زبان تھی بلکہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی صحبت میں رہ کر وہ سب کچھ سیکھ لیا تھا جو اللہ ان کو سکھانا چاہتا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے ارشادات اور عمل کو دیکھنے والے لاکھوں کی تعداد میں صحابہ کرام تھے جنہوں نے حضور اکرم ﷺ کی ایک ایک بات اور عمل کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا۔ نیز یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے کہ عربی زبان دنیا کی سب سے وسیع ترین زبان ہے جس کے ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنی ہوتے ہیں۔ اگر آج ہم نے لغت کے سہارے کسی ایک لفظ کے ایک معنی کردیئے تو کل کوئی دوسرا شخص اٹھ کر دوسرے معنی کر دے گا اور اس طرح ایک ایسا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع شروع ہوجائے گا کہ قرآن کریم کا مفہوم ہی کہیں سے کہیں تک پہنچ جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ منکرین حدیث کا بنیادی مقصد نظام قرآن کو بتاتا نہیں ہے بلکہ قرآن کریم نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے عمل نے جو ہمیں نظام زندگی دیا ہے اس کو نہایت چالاکی سے تباہ و برباد کردینا چاہتے ہیں اور جڑ و بنیاد سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں اس سلسلہ میں چند باتیں عرض ہیں جن کو نہایت توجہ اور احتیاط سے سننے کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ (1) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔ (2) نماز قائم کرنا۔ (3) زکوۃ ادا کرنا۔ (4) حج کرنا۔ (5) رمضان کے روزے رکھنا ۔ یہ وہ بنیادی باتیں ہیں جن پر اسلام کی عمارت تعمیر کی گئی ہے لیکن قرآن کریم میں ان اصولوں کی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں نماز قائم کرنے کا حکم ایک جگہ نہیں بلکہ لاتعداد مقامات پر دیا گیا ہے۔ رکوع ، سجدہ، تلاوت اور تسبیحات وغیرہ کا حکم ہے مگر کسی جگہ بھی یہ لفظ موجود نہیں ہے کہ نمازیں پانچ وقت پڑھی جائیں، ظہر ، عصر، عشاء میں چار چار رکعات مغرب میں تین فجر میں دو جمعہ میں دو وغیرہ یہ سب باتیں ہمیں نبی کریم ﷺ نے اپنے عمل اور حکم سے سکھائی ہیں جس پر پوری امت کا مسلسل عمل موجود ہے جس کے ہر زمانے میں کروڑوں مسلمان گواہ رہے ہیں اور ہیں اور ساری دنیا میں چند فقہی اختلافات کے باوجود بنیادی اختلافات کہیں نہیں پائے جاتے۔ مثلاً قرآن کریم میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا۔ ترجمہ :- اے نبی ! سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز قائم کیجیے اور فجر کے قرآن (نماز فجر) کا اہتمام کیجیے۔ کیونکہ فجر کے وقت (فرشتوں کی) حاضری کا وقت ہوتا ہے۔ ”’ لوک “ کے معنی جھک جانا، مائل ہوجانا ہے جس سے مراد زوال آفتاب ہے کیونکہ اس وقت سورج زوال کی طرف جاتا اور ڈھل جاتا ہے۔ اسی طرح فجر کے قرآن یعنی نماز فجر کے اہتمام کا حکم دیا گیا ہے۔ امت کے تمام علمائ، فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ اس آیت میں پانچ وقت کی نمازوں کا حکم دیا گیا ہے، ظہرہ ، عصر، مغرب، عشاء اورف جر اسی بات کو سورة ہود میں اسطرح فرمایا گیا ہے۔ ترجمہ :- نماز قائم کیجیے دن کے دونوں کناروں پر (یعنی فجر اور مغرب) اور کچھ رات گذرنے پر (یعنی عشائ) اسی طرح فرمایا گیا۔ ترجمہ :- اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے طلوع آفتاب سے پہلے (نماز فجر) اور غربو آفتاب سے پہلے (نماز عصر) اور رات کے اوقات میں پھر تسبیح کیجیے (نماز عشائ) اور ان کے دونوں سروں پر (فجر، ظہر، مغرب) اللہ تعالیٰ نے سورة روم میں فرمایا ہے ترجمہ :- اللہ کی تسبیح کیجیے جب کہ تم شام کرتے ہو (مغرب) اور جب صبح کرتے ہو (فجر) اور آسمانوں اور زمین میں اسی کی حمد و ثنا ہے اور دن کے آخری حصے میں (نماز عصر) اور جب تم دوپہر (ظہر) کرتے ہو (روم آیت نمبر 17، 18) ان آیات سے رات دن میں پانچ نمازوں کے احکامات ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ تہجد کی نماز آپ پر فرض تھی لیکن امت کے لئے سنت ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں پانچ نمازوں کا ذکر موجود ہے مگر ان کو کب، کیسے پڑھا جائے گا اس کو نبی کریم ﷺ ہی اللہ کے حکم سے متعین کر کے بتا سکتے تھے۔ کیونکہ ان نمازوں کی ترتیب اور اوقات اللہ نے حضرت جبرئیل کے واسطے سے نبی کریم ﷺ کو بتائے ہیں چناچہ ابو داؤد اور ترمذی میں حضرت عبداللہ ابن عباس کی یہ روایت نقل کی گئی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ جبرئیل نے مجھے دو مرتبہ بیت اللہ شریف کے قریب نماز پڑھائی (1) ظہر کی نماز ایسے وقت میں پڑھائی جب کہ سورج ڈھل چکا تھا اور سایہ ایک جوتی کے تسمے سے زیادہ نہ تھا۔ (2) پھر عصر کی نماز پڑھائی جب کہ ہر چیز کا سایہ اس کے اپنے قد کے برابر تھا۔ (3) پھر مغرب کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے۔ (4) پھر عشاء کی نماز شفیق غائب ہوتے ہی پڑھائی۔ (5) اور فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ روزہ دار پر کھاناپینا حرام ہوجاتا ہے۔ (1) دوسرے دن انہوں نے ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد کے برابر تھا۔ (2) اور عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد سے دوگنا ہوگیا۔ (3) اور مغرب کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے۔ (4) اور عشاء کی نماز ایک تہائی رات گذر جانے پر (5) اور فجر کی نماز اچھی طرح روشنی پھیلنے پر پڑھائی۔ پھر جبرائیل نے پلٹ کر عرض کیا اے محمد ! ! یہی وہ اوقات ہیں جن پر انبیاء کرام نے نمازیں پڑھی ہیں اور نمازوں کے اوقات ان دونوں وقفوں کے درمیان میں ہیں (یعنی پہلے دن ہر نماز کا ابتدائی وقت اور دوسرے دن ان نمازوں کے انتہائی اوقات بتائے گئے ہیں) قرآن کریم کے احکامات کی تشریح جس طرح حضور اکرم ﷺ کے عمل اور احادیث سے ثابت ہے اب قیامت تک ان پر ہی عمل کیا جائے گا۔ اس میں تبدیلی کا اختیار نہ کسی کو دیا ہے اور نہ کبھی کسی کو اس کا اختیار دیا جاسکتا ہے۔ جس طرح میں نے نماز کے متعلق تفصیل عرض کی ہے اسی طرح اسلام کے دوسرے ارکان کی تشریح بھی نبی کریم ﷺ نے جس طرح ارشاد فرما دی اس پر اسی طرح سے عمل کیا جائے گا۔ پانچوں نمازوں اور تہجد کا ذکر کرنے کے بعد نبی کریم ﷺ کو مکہ مکرمہ کے شدید ترین حالات میں جہاں یہ بتا دیا گیا کہ اس تنگ اور مصیبت کے وقت میں اللہ کی عبادت و بندگی ہی سکون قلب کا ذریعہ ہے وہیں ہجرت مدینہ، باطل کے مٹ جانے، مقام محمود پر فائز کرنے کی خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ قرآن کریم جہاں اہل ایمان کے لئے شفا اور رحمت ہے وہیں کفار و منکرین کے ضد اور ہٹ دھرمی میں اضافے کا بھی سبب ہے ۔ اس سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب بھی اس پر مشکل وقت آپڑتا ہے تو وہ مایوس ہوجاتا ہے۔ فرمایا کہ یہ تو انسان کی فطرت ہے کہ جب اس پر انعام و کرم کی بارش کی جاتی ہے تو وہ اس بات کو بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اس کو بد حالی سے خوش حالی نصیب فرمائی اور وہ شکر ادا کرنے کے بجائے بےنیازی کے طریقے اپنا کر منہ پھیر کر چلتا ہے اور جب اسی پر مصائب اور مشکلات کا ہجوم ہوتا ہے تو وہ مایوس ہو کر رہ جاتا ہے۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ آپ اپنا مشن اور مقصد جاری رکھئے اللہ تعالیٰ آپ کو نہ صرف اس دنیا میں عزت و آبرو کا مقام عطا فرمائے گا اور باطل کو مٹا کر حق کو قائم کر دے گا بلکہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس مقام پمحمود پر فائز فرما دے گا جہاں آپ اپنی پوری امت کی سفارش شفاعت فرمائیں گے۔ دنیا کی بھلائی اور خیر بھی آپ کی ہے اور آخرت کی عزت و عظمت بھی آپ ہی کی غلام ہے۔ روایات کے مطابق اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کو قیامت کے دن گیارہ چیزیں بطور خاص عطا فرمائیں گے۔ (1) سب سے پہلے بنی کریم ﷺ اپنے روضہ مبارک (قبر مبارک) سے بیدار ہوں گے۔ (2) میدان حشر میں جہاں کوئی سوار نہ ہوگا۔ اس دن نبی کریم ﷺ سواری پر سوار ہوں گے۔ (3) آپ کے دست مبارک میں ” لواء حمد “ ہوگا۔ جس جھنڈے کے نیچے سارے انبیاء اور رسول ہوں گے۔ (4) آپ کو وہ حوض کوثر عطا فرمایا جائے گا (جس کا پانی پی کر پھر کسی کو پیاس نہ لگے گی) (5) مقام محمود پر آپ ساری امت کی شفاعت فرمائیں گے جس کو شفاعت کبریٰ کہا گیا ہے۔ (6) ساری امتوں سے پہلے آپ کی امت کا فیصلہ ہوگا۔ ۔ (7) پل صراط پر بھی آپ سب سے پہلے گذر جائیں گے اور اس کو طے فرمائیں گے۔ (8) سب سے پہلے جنت میں نبی کریم ﷺ داخل ہوں گے۔ (9) مقام وسیلہ جو اللہ کی خاص رحمتوں والی جنت ہے وہ آپ کو عطا کیا جائے گا۔ (10) سب امتوں سے پہلے آپ کی امت جنت میں داخل ہوگی۔ (11) وہ اہل ایمان جن کے لئے جہنم کا فیصلہ کرلیا گیا ہوگا۔ آپ کی سفارش و شفاعت پر ان کو جہنم سے نجات مل جائے گی۔ (تفسیر ابن کثیر)
Top