Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 61
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ
وَاِذْ : اور جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں سے اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس قَالَ : اس نے کہا ءَاَسْجُدُ : کیا میں سجدہ کروں لِمَنْ : اس کو جسے خَلَقْتَ : تونے پیدا کیا طِيْنًا : مٹی سے
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس کے سب (فرشتوں) نے سجدہ کیا۔ کہنے لگا کہ کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 61 تا 65 طین مٹی۔ کر مت تو نے عزت دی۔ احتکن جڑیں اکھاڑ دوں گا۔ موفور بھرپور، پوری طرح۔ استفزز پھسلا لے، آمادہ کرلے۔ اجلب چڑھا کرلے آ۔ خیل گھوڑے ، سوار۔ رجل پیادے، پاؤں۔ غرور دھوکہ، فریب ۔ تشریح :- آیت نمبر 61 تا 65 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں زندگی کی سچائیوں کو کہانیوں اور قصوں کے طور پر بیان نہیں کیا بلکہ عبرت و نصیحت کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے اور عملی زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے واقعہ کے صرف اسی پہلو کو بیان کیا ہے جس کی اس موقع پر ضرورت ہوتی ہے۔ چناچہ حضرت آدم اور شیطان کے واقعہ کو سورة نبی اسرائیل کے علاوہ چھ اور بڑی سورتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سورة البقرہ، سورة اعراف، سورة حجر، سورة کہف، سورة طہ اور سورة ص ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے پہلے مخاطب مکہ مکرمہ کے لوگوں اور قیامت تک آنے والوں کو اس بات سے آگاہ فرمایا ہے کہ شیطان انسان کا پہلے دن سے دشمن ہے۔ اس نے اللہ کے بندوں کو اللہ کی راہ سے بھٹکانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ شیطان انسان کا ازلی دشمن محض اپنے تکبر و غرور، ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں اور ان کے سردار شیطان سے یہ فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو اس نے نہایت غرور وتکبر کا انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ میں انسان کے سامنے نہیں جھک سکتا کیونکہ میں اس سے کہیں برتر اور اعلیٰ ہوں اور کہنے لگا کہ اگر مجھے قیامت تک مہلت دی جائے تو میں اس کو ثابت کر کے دکھا سکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو مہلت دے کر قیامت تک کے لئے اپنی بارگاہ سے نکال دیا اور فرما دیا کہ اے شیطان تیرا قابو اور تیرے فریب کا جادو ان لوگوں پر نہ چل سکے گا جو میرے فرماں بردار اور نیک بندے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان سے فرما دیا کہ تجھے مکمل آزادی ہے کہ جس پر بھی تیرا بس اور قابو چلتا ہے اس پر اپنے لشکروں کو چڑھا کرلے آ۔ لوگوں کے جان و مال میں شرک کے ہزاروں انگارے بھر دے لیکن تو دیکھے گا کہ میرے مخلص بندے تیرے جال سے صاف نکل جائیں گے اور ساری دنیا کو چھوڑ کر جب وہ میرے اوپر بھروسہ کریں گے تو میری رحمت ان گرتے ہوئے لوگوں کو سنبھلا لے گی کیونکہ میرے علاوہ بھروسہ کرنے کے لئے کوئی دوسری ذات نہیں ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرما دیا کہ زندگی کے دو ہی راستے ہیں ایک تو حق و صداقت کی راہ میں چلنے کا اور اس میں ہمت و طاقت سے صبر و تحمل کا طریقہ اختیار کرنا اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ کرنا ہے اور دوسرا راستہ شیطان کا وہ راستہ ہے جس میں وہ جھوٹ اور فریب کے بہت خوش نما جال پھیلا کر انسانوں کو صراف مستقیم سے دور کردیتا ہے۔ اللہ نے ایمان اور کفر کے دونوں راستے کھلے رکھ دیئے ہیں۔ اب یہ انسانوں پر ہے کہ وہ ان دونوں راستوں میں سے کس راستہ کو اختیار کر کے اپنے لئے جنت یا جہنم کو چنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو راستے دکھا دیئے ہیں اب اگر وہ چاہے تو شکر (ایمان و عمل صالح) کا راستہ اختیار کرلے اور چاہے تو انکار (کفر و شرک اور گناہوں کا) کی راہ پر چل پڑے۔ لیکن دونوں راستوں کو دکھانے کے بعد دونوں کا انجام بھی بتا دیا کہ جو لوگ ایمان و عمل صالح اور شکر و اطاعت کے راستے پر چلیں گے ان کے لئے نہ صرف آخرت کی ہر طرح کی کامیابیاں ہیں بلکہ ان لوگوں کی دنیا بھی درست ہوجائے گی اور آخرت بھی۔ اس کے برخلاف جن لوگوں نے کفر و شرک اور گناہوں کے راستے کا انتخاب کرلیا وہ حق اور سچائی کے راستے سے اسی قدر دور ہو کر اپنے ہاتھوں اپنی آخرت اور دنیا دونوں کو ضائع کر بیٹھیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا میں جدوجہد کر کے دنیا کے اسباب راحت کو اپنے آس پاس جمع کرلیں لیکن آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ اللہ کے بندوں کی دنیا اور آخرت دونوں ہی برباد ہوجائیں۔ لیکن اللہ کا یہ بہت بڑا کرم ہے کہ وہ اپنے بندوں کو شیطان کے جال سے بچانے کے لئے اپنے نیک بندوں کو ان کی اصلاح کے لئے ہر زمانہ میں بھیجتا رہا ہے۔ اللہ نے پہلے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا پھر جب اللہ نے اپنے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو بھیج دیا تو اب آپ کے بعد کوئی اور نبی اور رسول نہیں آئے گا لیکن اللہ کی اطاعت و فرماں برداری پر چلانے کے لئے علماء امت کو امت کی اصلاح کے لئے اٹھاتا رہے گا۔ چونکہ قرآن و سنت کی تعلیمات کی حفاظت کا اللہ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ قیامت تک خود ان کی نگرانی اور حفاظت فرمائے گا اس لئے اب کسی نئے نبی اور رسول کی ضروتر باقی نہیں رہی صرف وہ تعلیمات جن کو نبی مکرم ﷺ لے کر آئے ہیں ساری دنیا میں پھیلانے کے لئے علماء امت اور بزرگان دین اپنی اپنی ہمت کے مطابق خدمات سرانجام دیتے رہیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ علماء امت نے ہر دور میں اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کی طرف اٹھنے والے ہاتھوں کا مقابلہ کیا ہے اور انشاء اللہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی سربلندی کی یہ سعادت عطا فرمائے اور ہم سے دین کی عظمت کا کام لے لے۔
Top