Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 56
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ فَلَا یَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًا
قُلِ : کہ دیں ادْعُوا : پکارو تم الَّذِيْنَ : وہ جن کو زَعَمْتُمْ : تم گمان کرتے ہو مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا فَلَا يَمْلِكُوْنَ : پس وہ اختیار نہیں رکھتے كَشْفَ : دور کرنا الضُّرِّ : تکلیف عَنْكُمْ : تم سے وَ : اور لَا : نہ تَحْوِيْلًا : بدلنا
(اے نبی ﷺ آپ کہہ دیجیے کہ تم اگر ان کو پکارو گے جنہیں تم اللہ کے سوا (اپنا معبود) سمجھتے ہو تو وہ تم سے کسی تکلیف کو دور کرنے، بدلنے کا اختیار نہیں رکھتے۔
لغات القرآن آیت نمبر 56 تا 58 ادعوا پکارو۔ لایملکون وہ اختیار نہیں رکھتے۔ کشف کھولنا۔ دور کرنا۔ الضر تکلیف، مصیبت۔ تحویل بدلنا۔ یبتغون وہ تلاش کرتے ہیں۔ الوسیلۃ ذریعہ۔ اقرب زیادہ قریب۔ محذور ڈر کی چیز۔ مسطور لکھا ہوا۔ تشریح : آیت نمبر 56 تا 58 اللہ کے ساتھ اس کی ذات، صفات اور قدرت میں کسی اور کو شریک سمجھنایا شریک کرنا اس قدر بدترین اور گھناؤنا جرم ہے جس کی کسی حالت میں معافی نہیں ہے۔ قرآن کریم میں صاف صاف ارشاد فرما دیا کہ شرک ایک بہت بڑی بےانصافی اور ظلم ہے اسی لئے فرمایا کہ ” بیشک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرسکتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے علاو وہ بہت کچھ معاف کر دے گا جس کے لئے چاہے “ وجہ یہ ہے کہ شرک درحقیقت اللہ کی ذات پر براہ راست حملہ ہے۔ جس طرح وہ بیٹا جس نے ہمیشہ اپنی ماں کی نافرمانی کی ہوا گر پچاس سال کے بعد بھی وہ ماں کے قدموں میں سر رکھ کر معافی مانگے گا تو ماں اپنے بیٹے کو گلے لگا کر یہی کہے گی کہ بیٹا میں تو ہمیشہ تجھے یاد کرتی تھی اور وہ بیٹے کی برسوں کی نافرمانی کو اسط رح بھول جائے گی جیسے اس نے کبھی نافرمانی نہ کی ہو۔ لیکن اگر وہی بیٹا ماں کی آبرو پر حملہ کر دیگا تو وہ اس کو کبھی معاف نہ کرے گی۔ بلاتشبیہ اسی طرح کوئی اللہ کا بندہ برسوں نافرمانی کرنے کے بعد ایک دن سچے دل سے توبہ کرلے تو اللہ اس کے سارے گناہوں کو معاف فرما دے گا لیکن شرک کرنا اللہ کی ذات پر حملہ کرنا ہے اس لئے وہ اس کو معاف نہیں کرسکتا۔ یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اگر کوئی شخص کفر و شرک سے توبہ کرلے تو وہ اس کی توبہ کو ضرور قبول فرما لے گا کیونکہ اس نے اپنے بندوں پر رحم و کرم کرنے کو فرض قرار دے لیا ہے۔ جب نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت کے لوگوں نے نہ صرف سارے عرب میں اپنے ہاتھوں سے گھڑے ہوئے بتوں کو معبود کا درجہ دے رکھا تھا بلکہ جنتا اور فرشتوں کو بھی اپنا کار ساز اور حاجت روا سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے لوگو ! تم اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہو نہ تو وہ تمہاری مشکلات کو دور کرنے والے ہیں اور نہ تمہارے حالات کو بدلنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ یہ تو خود اللہ کو پکارتے ہیں اور اس کا قرب تلاش کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ وہ اللہ سے زیادہ سے زیادہ قربت حاصل کرلے اور وہ اس بات سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ کہیں ان سے کوئی نافرمانی نہ ہوجائے جس سے اللہ کا عذاب نازل ہوجائے۔ فرمایا کہ اس کائنات میں ساری قوت و طاقت صرف ایک اللہ کی ہے وہی سب کا مشکل کشا اور کار ساز ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جو تمہارے کسی کام آسکے گا۔ فرمایا کہ وہ لوگ جو دنیا کی نعمتیں حاصل کرنے کے بعد یا بڑی بڑی بلڈنگیں اور شہر بنانے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیزیں ہمیشہ رہیں گی تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ کیونکہ یہ ساری بستیاں اور آبادیاں یا تو لوگوں کی نافرمانی اور گناہوں کی وجہ سے مٹا دی جائیں گی یا قانون قدرت کے تحت قیامت کے دن ان سب آبادیوں اور بستیوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ یہ چیزیں باقی رہنے والی نہیں ہیں اس کو اللہ نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے بلکہ باقی رہنے والی چیزیں صرف انسان کے اچھے یا برے اعمال ہیں جو اس کو جنت یا جہنم تک پہنچائیں گے۔
Top