Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 49
وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں ءَاِذَا : کیا۔ جب كُنَّا : ہم ہوگئے عِظَامًا : ہڈیاں وَّرُفَاتًا : اور ریزہ ریزہ ءَاِنَّا : کیا ہم یقینا لَمَبْعُوْثُوْنَ : پھر جی اٹھیں گے خَلْقًا : پیدائش جَدِيْدًا : نئی
وہ کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا پھر سے پیدا کر کے اٹھائے جائیں گے ؟
لغات القرآن آیت نمبر 49 تا 52 عظام ہڈیاں۔ رفات ریزہ ریزہ ہوجانا۔ کونوا ہوجاؤ۔ حجارۃ پتھر۔ حدید لوہا۔ یکبر بڑا ہو۔ یعید لوٹائے گا۔ فطر کم جس نے تمہیں پیدا کیا۔ اول مرۃ پہلی مرتبہ۔ اول مرۃ پہلی مرتبہ۔ سینغضون ہلائیں گے۔ روس (راس) سر۔ متی ھو وہ کب ہوگا۔ ؟ ۔ تستجیبون تم جواب دو گے۔ تظنون تم گمان کرو گے۔ ان لبثتم تم نہیں ٹھہرے۔ قلیل تھوڑا۔ تشریح : آیت نمبر 49 تا 52 کفار مکہ اور مشرکین اللہ کے سچے نبی حضرت محمد ﷺ کو لوگوں کی نگاہوں میں کم حیثیت ظاہر کرنے کے لئے طرح طرح کے سوالات اور آپ کی ذات کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ کبھی کہتے کہ آپ پر کسی نے جادو کردیا ہے اور وہ جو کچھ کر رہے ہیں اسی جادو کے زیر اثر کر رہے ہیں۔ کبھی آپ کو جادوگر، شاعر، کاہن اور مجنوں تک کہہ دیتے تھے۔ کبھی کہتے کہ بھلا یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے کہ جب انسان مرنے کے بعد چورا چورا ہوجائے گا، اس کا وجود تک مٹ جائے گا وہ کس طرح دوبارہ زندہ ہوگا۔ ۔ متعدد مقامات پر کفار کے اس سوال کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نقل کر کے ایک ہی جواب دیا ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان سے صاف الفاظ میں کہہ دیجیے کہ اس میں تعجب کی کونسی بات ہے جب انسان ذروں کی شکل میں بکھر جائے گا تو ان ذروں کو جمع کر کے پھر سے انسان کو اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ فرمایا کہ یہ تو انسانی وجود کے ذروں کے بکھرنے کی بات ہے اگر انسانی ذرے لوھا اور پتھر بھی بن جائیں گے تو اللہ ان ہی چیزوں کے ذرات سے انسان کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا کیونکہ یہ بات اس اللہ کے لئے ناممکن کیسے ہو سکتی ہے جس نے انسان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور مٹی کے ذرات کو جمع کر کے اس کو جیتا جاگتا انسان بنا دیا تھا۔ کسی چیز کو پہلی مرتبہ پیدا کرنا اور بنانا مشکل ہوتا ہے اسی کو دوبارہ بنانا مشکل اور ناممکن نہیں ہوتا۔ فرمایا کہ اے نبی ! یہ لوگ اس حقیقت کو اچھی طرح جان لینے کے باوجود مذاق اڑانے کیلئے سر کو ہلا ہلا کر کہیں گے کہ اچھا ایسا کب ممکن ہے ؟ اچھا تو اگر یہ ممکن ہے تو پھر یہ واقعہ کب ہوگا۔ ؟ فرمایا کہ ان سے کہہ دیجیے کہ جب اللہ تعالیٰ اس حقیقت پر سے پردہ اٹھائیں گے وہ وقت دور نہیں ہے جب سارے انسان اللہ کے کمالات اور شان و عظمت کے گن گاتے ہوئے اس کی طرف دوڑتے ہوئے آئیں گے اور ان کی زبانوں پر یہ جملہ ہوگا۔ کہ واقعی دنیا میں جو مہلت اور وقت دیا گیا تھا وہ بہت ہی کم تھا کاش ہم اس وقت کا فائدہ اٹھا سکتے ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ کفار و مشرکین اسی طرح مذاق اڑاتے رہیں گے مگر آپ ان کی پرواہ نہ کیجیے کیونکہ یہ حقیقت اور سچائی بہت جلد ظاہر ہو جائی گی اور ان میں سے ہر شخص اللہ کی حمد و ثنا خوبیاں اور کمالات بیان کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔
Top