Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 45
وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًاۙ
وَاِذَا : اور جب قَرَاْتَ : تم پڑھتے ہو الْقُرْاٰنَ : قرآن جَعَلْنَا : ہم کردیتے ہیں بَيْنَكَ : تمہارے درمیان وَبَيْنَ : اور درمیان الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر حِجَابًا : ایک پردہ مَّسْتُوْرًا : چھپا ہوا
(اے نبی ﷺ جب آپ قرآن پھڑتے ہیں تو ہم آپ کے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کردیتے ہیں
لغات القرآن آیت نمبر 45 تا 48 قرات تو نے پڑھا۔ حجاب پردہ۔ مستور چھپا ہوا۔ اکنۃ پردہ۔ وقر گرانی، ڈاٹ۔ وحدہ یکتا۔ ایک اللہ۔ ولو وہ پلٹ گئے۔ بھاگ گئے۔ اد بار (دبر) پیٹھ۔ یستمعون وہ غور سے سنتے ہیں۔ نجوی چپکے چپکے باتیں کرنا۔ سرگوشیاں۔ مسحور جادو کیا گیا۔ ضربوا وہ مارتے ہیں۔ چسپاں کرتے ہیں (چسپاں کیا) ۔ لایستطیعون وہ طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ تشریح : آیت نمبر 45 تا 48 عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان کی دولت اور نور بصیرت سے محروم ہوتے ہیں وہ اپنے دل کو تسلی اور نگاہوں پر فریب کے پردے ڈال کر ایسی بےبنیاد باتوں کو گھڑ لیتے ہیں جن کی کوئی اصل اور حقیقت نہیں ہوتی اور انداز فکر کے زاویئے اتنے بدل جاتے ہیں کہ ان غلط باتوں کو صحیح سمجھ کر اپنی پوری زندگی گذار دیتے ہیں۔ یہی صورتحال اس وقت تھی جب نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت فرماتے تھے اور اس میں توحید و رسالت، فکر آخرت، اہل ایمان کی کامیابی اور کفار و منافقین کی ناکامی کی مثالیں بیان فرماتے تھے۔ کفار و منافقین کو یہ باتیں پسند نہ آتی تھیں اور وہ بہانے بنا کر آپ کی مجلس سے اٹھ جاتے اور پہلو بچانے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر وہ کسی بات کو سنتے تو اس میں ان کی بد نیتی یہ ہوتی تھی کہ شاید کوئی ایسا پہلو یا بات مل جائے جس کو سامنے رکھ کر نبی کریم ﷺ اور تعلیمات قرآن کا مذاق اڑانے کا موقع ہاتھ آجائے۔ چناچہ کفار و منافقین ہر سچائی کو موڑ توڑ کر پیش کرتے اور چپکے چپکے سرگوشیاں کرتے اور کہتے رہتے کہ ایک ایسے شخص کیب ات کیا سننا جو (نعوذ باللہ) جادو کے زیر اثر ہے اور بہکی بہکی باتیں کرتا ہے۔ وہ اسلام کی سچی تعلیمات سے دوری کو بد نصیبی سمجھنے کے بجائے اس پر فخر کرتے اور یہ بھی کہتے کہ یہ نبی کوئی بات بھی کہیں ہمارے دلوں پر اس کا اثر نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے دلوں پر ایسے غلاف چڑھے ہوئے ہیں کہ ہمارے اوپر کسی کی بات کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ سورة حم السجدہ میں ایسے لوگوں کا یہ جملہ نقل کیا گیا ہے۔ یعنی اے محمد ! آپ جس چیز کی طرف ہمیں بلا رہے ہیں اس کے لئے ہمارے دل بند ہیں اور ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان ایک پردہ حائل ہوگیا ہے۔ تو آپ اپنا کام کیجیے اور ہم اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقع پر اس کا جواب عنایت فرمایا کہ جس بات پر یہ فخر کر رہے ہیں وہ ایک نحوست اور اللہ کی لعنت ہے جس کو یہ فخر یہ بیان کر رہے ہیں۔ فرمایا اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل تو غلاف میں ہیں (اللہ نے فرمایا نہیں) بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی لعنت ہے (جو ان کے اعمال کے سبب ان پر مسلط کردی گئی ہے) فرمایا کہ یہ فخر اور خوشی کی بات نہیں ہے بلکہ اپنی بدقسمتی پر ماتم کرنے کی چیز ہے۔ فرمایا کہ اے نبی ! جب آپ اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں تو ہم آپ کے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک رکاوٹ ڈال دیتے ہیں اور ان کے دلوں پر ایسے غفلت کے پردے ڈال دیتے ہیں کہ وہ ایک سامنے کی چیز اور حقیقت کو سمجھنے سے بھی محروم رہتے ہیں ان کے کانوں میں ایسی گرانی پیدا ہوجاتی ہے کہ جب ان کے سامنے یکتا پروردگار کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کی طرف مائل ہونے کے بجائے پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہیں۔ فرمایا کہ اگر وہ آپ کی مجلسوں میں آپ کی بات سنتے بھی ہیں تو ان کا مقصد اپنی اصلاڈح نہیں ہوتی بلکہ سرگوشیوں میں اور اشاروں میں باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک ایسے شخص کی بات سن کر اس کی پر یوی کرنا حماقت ہے جو خود کسی جادو کے زیر اثر بہکی بہکی باتیں کرتا ہے (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فمایا کہ اے نبی ! یہ آپ کے متعق کیسی بےحقیقت اور فضول مثالیں گھڑتے ہیں اور آپ کے خلصو کی قدر نہیں کرتے کیونکہ یہ ذہنی و فکری اعتبار سے اس قدر بھٹک چکے ہیں کہ انہیں اس گمراہی سے نکلنے کا راستہ بھی نہیں ملتا اور وہ اپنی گمراہی کے گڑھے میں گرتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ آپ ان کی فکر نہ کیجیے۔ اللہ کا دین پہنچاتے رہیے جو سعادت مند اور خوش نصیب ہیں وہ دین کی سچائیوں پر عمل کر کے اپنی دنیا اور آخرت سدھار لیں گے اور زبردست کامیابیاں حاصل کرلیں گے۔
Top