Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 40
اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِیْنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ اِنَاثًا١ؕ اِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا۠   ۧ
اَفَاَصْفٰىكُمْ : کیا تمہیں چن لیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب بِالْبَنِيْنَ : بیٹوں کے لیے وَاتَّخَذَ : اور بنا لیا مِنَ : سے۔ کو الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے اِنَاثًا : بیٹیاں اِنَّكُمْ : بیشک تم لَتَقُوْلُوْنَ : البتہ کہتے ہو (بولتے ہو) قَوْلًا عَظِيْمًا : بڑا بول
کیا تمہارے رب نے تمہیں بیٹوں کے لئے چن لیا ہے اور اپنے لئے فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنا لیا ہے۔ بیشک تم نے نہایت بدترین بات کہی ہے
لغات القرآن آیت نمبر 40 تا 44 اصفی اس نے چن لیا، منتخب کرلیا۔ بنین بیٹے۔ اناث بیٹیاں۔ فرفنا ہم نے طرح طرح سے بیان کیا۔ نفور نفرت۔ علو بلند تر۔ لاتفقھون تم نہیں سمجھتے۔ تسبیح پاکیزگی، تسبیح۔ حلیم برداشت کرنے والا۔ تشریح : آیت نمبر 40 تا 44 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس حقیقت کو بار بار دھرایا ہے کہ اس کائنات کا خلاق ومالک صرف ایک اللہ ہے۔ اگر زمین و آسمان میں ایک اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتا تو نظام کائنات تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا۔ وہ اللہ اس نظام کائنات کو چلانے میں نہ کسی کا محتاج ہے اور نہ کوئی اس کا شریک ہے۔ جس طرح دنیا کے بادشاہ اور حکمران اپنی مملکت، حکمرانی اور وراثت کے لئے اپنی اولاد، بیوی اور مددگاروں کے محتاج ہوتے ہیں وہ اللہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ کفار و مشرکین کو جس بات نے گمراہی میں پھنسا دیا تھا وہ ان کی یہی سوچ تھی کہ وہ اللہ کو بھی اپنے جیسا سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے اللہ کے لئے بیٹے اور بیٹیاں تجویز کر رکھی تھیں چناچہ جس طرح وہ حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا بنا کر پیش کرتے تھے ان کی گستاخی کی حد یہ تھی کہ انہوں نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بنا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس گستاخانہ انداز کا مذاق اڑاتے ہوئے فرمایا کہ تم نے اپنے لئے تو بیٹے تجویز کر لئے اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے لیا۔ حالانکہ اللہ بیٹے اور بیٹیوں سے بےنیاز ہے ۔ فرمایا جا رہا ہے کتنی عجیب بات ہے کہ جب ان کفار کے گھر میں کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو ان کے چہرے سیاہ پڑجاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے گھر میں ایک لڑکی نہیں بلکہ مصیبت آگئی ہے۔ لڑکیوں کو نہایت برا سمجھتے ہیں اور جب کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے تو وہ خوشی سے پھولا نہیں سماتا فرمایا کہ اپنے لئے تو انہوں نے بیٹے بنا رکھے ہیں اور اللہ کے لئے انہوں نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بنا کر پیش کیا ہے۔ فرمایا کہ انہوں نے اللہ کی شان میں بڑی گستاخانہ بات کی ہے لیکن یہ ان کی سمجھ کا ایک پھیر ہے جس کو وہ خود بھی نہیں سمجھتے۔ اگر ان کو سمجھایا جائے تو ان کی نفرت میں اضافہ ہی ہوتا ہے وہ اپنی اصلاح کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ فرمایا کہ وہ اللہ ایک ہے اگر ایک معبود کے سوا دوسرے معبود ہوتے تو یہ لوگ تو وہاں بھی اپنی خواہشوں کی کمند پھینکنے سے باز نہ آتے۔ اس کے بعد اللہ نے ایک اصولی بات ارشاد فرمائی ہے کہ ساری دنیا کے انسان مل کر بھی اگر اس کی حمد وثناء نہ کریں تو وہ اس میں بھی بےنیاز ہے کیونکہ اس پوری کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی حمد و ثنا کر رہا ہے۔ عام لوگ ان کی حمد وثناء کو سمجھ نہیں سکتے لیکن زمین و آسمان، پہاڑ، دریا، سمندر، چرند، پرند، درند اور شجر و حجر ہر وقت اس کی حمد و ثنا کرتے رہتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر چیز ادراک و شعور رکھتی ہے اور ہر چیز اس کی تعریف میں لگی ہوئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ کوئی جن، انسان ، درخت ، پتھر اور مٹی کا ڈھیلا ایسا نہیں ہے جو موذن کی آواز سنتا ہو اور قیامت کے دن اس کے ایمان اور نیک ہونے کی شہادت و گواہی نہ دے گا۔ (مسند امام احمد، موطا امام مالک) احادیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے ہاتھ میں چند کنکریاں تھیں جو اللہ کی تسبیح کر رہی تھیں اور صحابہ کرام نے بھی ان کی تسبیح کو سنا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ یعنی ہم نے (داؤد کے لئے) پہاڑوں کو تابع کردیا تھا اور وہ پہاڑ صبح و شام اس اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ یعنی یہ لوگ اللہ کے لئے بیٹا تجویز کرتے ہیں (اور ان کے کلمہ کفر سے) پہاڑوں پر بھی خوف طاری ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم کی آیات اور احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ تکوینی طور پر ہر چیز اللہ کی حمد و ثنا کر رہی ہے۔ لہٰذا جس طرح وہ بیوی ، بچوں کا محتاج نہیں ہے اسی طرح وہ کسی کی حمد و ثنا اور عبادت کا بھی محتاج نہیں ہے۔ وہ اللہ حی وقیوم ہے یعنی زندہ ہے اور پوری کائنات کو خود ہی سنبھال کر چلا رہا ہے اس میں وہ کسی کا محتاج نہیں اور نہ وہ اس کی حفاظت سے تھکتا ہے ۔ اسی حقیقت کو ان آیات میں اس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے۔ کیا اللہ نے تمہیں تو بیٹوں کیلئے چن لیا ہے اور اپنے لئے فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنا لیا ہے۔ یہ ایک نہایت بدترین بات ہے۔ حالانکہ ہم نے اس قرآن میں ہر طرح کی مثالیں دے کر سمجھانے کی کوشش کی ہے مگر وہ لوگ نصیحت حاصل کرنے کے بجائے نفرتوں کو اور بڑھا رہے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ان نادانوں سے کہہ دیجیے کہ اگر ایک اللہ کے ساتھ اور معبود بھی ہوتے (جیسا وہ کہتے ہیں) تو وہ عرش کے مالک کی طرف ضرور کوئی راستہ ڈھونڈ نکال لیتے۔ فرمایا کہ اس کی ذات پاک بےعیب ہے اور اس سے اللہ بہت بلندو برتر ہے جو وہ اللہ کے لئے کہتے ہیں۔ فرمایا کہ ساتوں آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اس کی پاکیزگی اور حمد و ثنا کر رہی ہے یہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہ سمجھ سکو لیکن ہر چیز اس کی ثنا خواں ہے۔ فرمایا کہ یہ تو اللہ کا حلم و برداشت اور مغفرت و معافی کا غلبہ ہے ورنہ ان گستاخانہ باتوں پر کڑی سے کڑی سزا بھی دی جاسکتی تھی۔
Top