Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
انسان شر (برائی) کو اس طرح مانگتا ہے جیسے اسے خیر مانگنی چاہئے۔ انسان بہت جلد باز ہے
لغات القرآن آیت 11 تا 15 یدع دعا کرتا ہے۔ پکارتا ہے۔ عجولاً بہت جلد باز۔ محونا ہم نے مٹا دیا۔ مبصرۃ روشن ، دکھانے والی السنین (سن) سال، کئی سال۔ الزمنا ہم نے لٹکا دیا۔ ہم چمٹا دیا۔ طائرۃ پرندہ، اس کی قسمت، شگون۔ عنق گردن۔ منشور کھلا ہوا۔ حسیب حساب دینے والا ۔ وازرۃ بوجھ۔ معذبین عذاب دینے والے۔ حتی نبعت جب تک ہم بھیج نہ دیں۔ رسول پیغام بر، بھیجا ہوا۔ تشریح : آیت نمبر 11 تا 15 اللہ جو اس کائنات کا خلاق ومالک ہے اس نے اپنی قدرت سے اس کے نظام کو اس طرح ترتیب دے رکھا ہے کہ ہر چیز اپنی جگہ نہایت احسن طریقے پر چل رہی ہے۔ یہ نظام نہ تو کسی جلد بازی کا نتیجہ ہے نہ اس میں کوئی فیصلہ عجلت اور جلد بازی میں کیا جاتا ہے بلکہ ہر چیز کے ہونے اور مکمل ہونے کا ایک وقت مقرر ہے جو آہستگی سے رواں دواں ہے۔ ہر روز سورج اپنے مقرر وقت پر نکلتا ہے۔ اپنی چمک دمک سے دن کو روشن کرتا چلا جاتا ہے۔ رات کی تاریکی میں چاند اپنی ٹھنڈی کرنوں کو بکھیر تا رہتا ہے۔ ستارے چمک کر رات کی تاریکی میں بھٹنکنے والوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔ رات اور دن کے آنے جانے سے ماہ و سال بنتے چلے جاتے ہیں۔ دنیا میں طرح طرح کے انقلاب سے کوئی بن رہا ہے کوئی بگڑ رہا ہے، کوئی سنور رہا ہے کوئی مٹ رہا ہے لیکن کائنات کے نظام پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ دنیا اسی طرح چل رہی ہے اور چلتی رہے گی قدرت جب چاہے گی اس کو مٹا کر ایک نیا جہاں بنا دے گی۔ جب تک یہ دنیا اور اس کا نظام قائم ہے انسان اس سے فائدے حاصل کرتا رہے گا۔ کیونکہ اللہ نے اس دنیا کی ہر چیز انسان کے لئے بنائی ہے تاکہ وہ ایک وقت تک اس کو استعمال کرلے اور انے لئے کسی خیر یا شر کے راستے کو اختیار کرلے۔ لیکن انسان اس کائنات کے چند معمولی فائدے کو حاصل کر کے اپنے خلاق ومالک کو بھول جاتا ہے اور وہ غیر اللہ کو اپنا معبود بنا لیتا ہے۔ ظلم و زیادتی، گناہ اور خطاؤں کی دلدل میں اس طرح دھنس جاتا ہے کہ اس چکر سے نکلنا اس کے لئے مشکل بن جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود قدرت اس کو سنبھلنے، سنورنے اور سدھرنے کے مواقع اور مہلتیں دیتی چلی جاتی ہے تاکہ یہ راستے سے بھٹکا ہوا انسان راہ ہدایت پر آجائے اور اپنی خطاؤں پر شرمندہ ہو کر توبہ کرلے اس کے لئے و اپنے ایسے پاکیزہ نفس انسانوں کو بھیجتا ہے جو ان کی وراہ ہدایت دکھاتے ہیں تاکہ وہ اپنی اصلاح کرلیں لیکن اگر دنیا کی بدمستی میں وہ انبیاء کرام کو جھٹلاتے ہیں اور ان کی اطاعت نہیں کرتے تب ان پر اللہ کا فیصلہ آجاتا ہے اور وہ ان کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ اگر اللہ کی ہر صفت پر اس کی صفت رحم و کرم، عفو و درگزر اور حلم و برداشت غالب نہ ہوتی تو وہ ہر گناہ پر انسان کو فوراً ہی پکڑ لیا کرتا لیکن وہ انسان کو سنبھلنے کی مہلت دیتا رہتا ہے ۔ اس کے برخلاف انسان اس قدر جلد باز ہے کہ وہ ہر چیز کے نتیجے کو فوری طور پر اپنے سامنے دیکھنا چاہتا ہے خواہ وہ اس کے حق میں بہتر ہو یا نہ ہو۔ انسان کی اس جلد بازی کی عادت کو ان آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا کہ انسان کس قدر جلد باز ہے کہ وہ خیر مانگنے کے بجائے برائی (عذاب الٰہی) کی جلدی مچاتا ہے اور کہتا ہے کہ اے اللہ اگر تو نے کسی عذاب کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو پھر دیر کس بات کی ہے فیصلہ کر دے اور عذاب نازل کر دے تاکہ یہ روز روز کا جھگڑا ختم ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خیر اور بھلائی مانگنے کے بجائے برائی اور عذاب الٰہی کا مطالبہ کرنا یہ انسان کی جلد بازی کا مزاج ہے جس پر وہ غور کئے بغیر نتیجہ سے بےپرواہ ایک غلط چیز کا مطالبہ کرتا ہے۔ حالانکہ وہ خیر اور بھلائی کا راستہ اختیار کر کے اپنی دنیا اور آخرت کی بہتری کا سامان بھی کرسکتا تھا۔ فرمایا کہ انسان اگر رات اور دن کے آنے جانے اور ماہ و سال کے نظام پر غور کرلے تو اس کو اچھی طرح اندازہ ہوجائے گا کہ اللہ اس نظام کائنات کو اپنی مرضی کے مطابق چلا رہا ہے وہ اس نظام کو چلانے میں جلد بازی نہیں کرتا اور وہ انسانوں کے ہر گناہ پر فوراً گرفت نہیں کرتا فرمایا کہ یہ سب اللہ کا فضل و کرم ہے کہ وہ لوگ کی نافرمانیوں اور گناہوں پر فوری طور پر سزا دینے کے بجائے ان کو مہلت پر مہلت دے رہا ہے۔ دنیاوی زندگی کی ہر سہولت دے را ہے تاکہ وہ شکر گذاروں کا راستہ اختیار کرسکیں لیکن اگر انہوں نے یہی روش قائم رکھی تو وہ وقت دور نہیں ہے جب ان کو اپنے کئے ہوئے اعمال پر نہ صرف شرمندہ ہوناپڑے گا بلکہ کڑی سے کڑی سزا بھی بھگتنا پڑے گی۔ اور کسی طرف سے ان کی مدد نہ کی جاسکے گی۔ فرمایا کہ انسان کو ناشکری کا راستہ چھوڑ کر فکر آخرت اختیار کرنا چنا ہے کیونکہ اس دنیا کی زندگی تو نہایت مختصر وقت کے لئے ہے مگر آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے۔ جس نے آخرت کی فکر اختیار کرلی وہی کامیاب و بامراد ہے وہی ہدایت پر ہے لیکن جس نے آخرت کی فکر نہ کی اور گمراہی کا راستہ اختیار کرلیا تو اس کا نقصان خود اسی کو بھگتنا پڑے گا اور وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھا سکے گا بلکہ ہر انسان کو اپنا بوجھ خود اٹھانا پڑے گا۔
Top