Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 101
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ فَسْئَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِذْ جَآءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَا : البتہ ہم نے دیں مُوْسٰي : موسیٰ تِسْعَ : نو اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : کھلی نشانیاں فَسْئَلْ : پو پوچھ تو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اِذْ : جب جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا فَقَالَ : تو کہا لَهٗ : اس کو فِرْعَوْنُ : فرعون اِنِّىْ : بیشک میں لَاَظُنُّكَ : تجھ پر گمان کرتا ہوں يٰمُوْسٰي : اے موسیٰ مَسْحُوْرًا : جادو کیا گیا
اور یقینا ہم نے موسیٰ کو کھلی ہوئی واضح نو عدد نشانیاں (معجزات) عطا کی تھیں آپ ﷺ بنی اسرائیل سے پوچھئے کہ جب موسیٰ آئے تو فرعون نے کیا کہا تھا۔ (اس نے کہا تھا کہ) اے موسیٰ میرا گمان یہ ہے کہ تم پر جادو کردیا گیا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 101 تا 109 تسع نو۔ اسئل پوچھئے۔ مسحور جادو کیا گیا۔ سحر زدہ۔ بصائر سمجھ بوجھ کی باتیں۔ مثور تباہ کیا جانے اولا۔ اسکنوا آباد ہوجاؤ۔ رہو سہو۔ لفیف سمیٹ کر۔ فرقنا ہم نے جدا کیا۔ مکت ٹھرٹھر کر۔ تنزیل آہستہ آہستہ اتارنا۔ اوتوالعلم علم دیا گیا۔ یتلی پڑھا گیا۔ یخرون وہ گر پڑتے ہیں۔ اذقان تھوڑیاں۔ یبکون وہ روتے ہیں۔ خشوع خشوع۔ عاجزی و انکساری ۔ تشریح : آیت نمبر 101 تا 109 انبیاء کرام کو معجزات اس لئے دیئے جاتے ہیں تاکہ ان کو دیکھ کر کفار اپنے کفر سے توبہ کرلیں اور سالام کی سچائیوں کو قبول کرلیں۔ ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو ایسے نو معجزات عطا کئے تھے جن کو دیکھ کر بنی اسرائیل اور فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ایمان قبول کرلینا چاہئے تھا مگر انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی ان معجزات کا انکار کیا اس کے برخلاف جنہوں نے حضرت موسیٰ کے معجزات دیکھ کر ایمان قبول کرلیا تھا اللہ نے ان کو نجات عطا فرما دی اور فرعون اور اس کے ساتھی جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ان کو عبرت ناک سزا دی گئی۔ فرعون اور اس کے ماننے والوں میں غرق کردیا گیا۔ جب حضرت موسیٰ نے اللہ کے دین کی طرف دعوت دی تو انہوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ حضرت موسیٰ کے معجزات کو جادو قرار دے کر ملک کے تمام نامی گرامی جادو گروں کو حضرت موسیٰ کے مقابلے میں لاکھڑا کردیا۔ لیکن وہی جادوگر جو انعام و اکرام کے لالچ میں اپنے جادو کے کمالات دکھا رہے تھے جب انہوں نے عصائے موسیٰ کے معجزے کو دیکھا تو انہوں نے فرعون کے بھرے دربار میں اپنے ایمان کا اعلان فرما دیا۔ جب فرعون نے اس نافرمانی کے انجام سے ڈرایا تو وہ ڈٹ گئے اور انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اے فرعون ہم نے اسلام قبول کرلیا اب اس کا انجام کچھ بھی ہو۔ حضرت موسیٰ نے بھرے دربار میں ایک مرتبہ پھر فرعون کو للکارا اور کہا کہ اگر تو نے ان معجزات کو دیکھ کر بھی ایمان قبول نہ کیا تو تیرا انجام بہت ہی زیادہ خراب ہونے والا ہے۔ فرعون نے حضرت موسیٰ کی اس دعوت کو ہنسی مذاق میں اڑا دیا اور پھر سے اپنی سازشوں میں لگ گیا اور حضرت موسیٰ کو شکست دینے کے طریقوں میں غرق ہوگیا۔ وہ نو معجزات جن کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہیں۔ (1) ید بیضا (2) عصا (3) طوفان (4) ٹڈیوں کا عذاب (5) مینڈکوں کا عذاب (6) جوؤں کا عذاب (7) خون کا عذاب (8) ثمرات کی کمی (9) چچڑیوں کا پیدا ہونا (سورۃ اعراف) ترمذی میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ یہود نے آپ سے پوچھا کہ وہ نو معجزات کیا تھے ؟ فرمایا وہ نو احکامات ہیں ۔ (1) شرک نہ کرو (2) چوری نہ کرو (و) زنانہ کرو (4) ناحق خون نہ بہاؤ (5) جادو نہ کرو (6) سود مت کھاؤ (7) بےگناہ کو نہ پکڑواؤ کہ حاکم اس کو قتل کر دے (8) پاک دامن عورتوں پر تہمت نہ لگاؤ (9) جہاد سے نہ بھاگو ۔ فرمایا کہ یہ نو احکامات تھے لیکن یہودیوں کے لئے ایک مخصوص حکم تھا کہ تم ہفتہ کے دن حد سے نہ بڑھو ۔ اہل یہود نے آپ کی اس بات کی تصدیق کی۔ قرآن کریم اور حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ نے حضرت موسیٰ کو نو نشانیاں دیں اور نو ہی احکامات بھی دیئے۔ جب فرعون اور آل فرعون نے مسلسل نافرمانی کی اور حضرت موسیٰ پر ایمان نہ لائے تو اللہ نے فرعون کو غرق کردیا اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دلا کر فرعونیوں کی بستیوں میں ان کو آباد کیا۔ حضرت موسیٰ نے قوم بنی اسرائیل کو سمجھایا کہ وہ فرعون کی طرح نافرمانی اختیار نہ کریں کیونکہ اللہ کو نافرمانی کسی کی بھی پسند نہیں ہے۔ فرمایا کہ اگر تم نے بھی گزشتہ لوگوں کی طرح کفر و شرک اور نافرمانی کا طریقہ اختیار کیا تو پھر اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا ۔ حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو اس سر زمین پر آباد کر کے نصیحت فرمائی کہ تم اس سر زمین پر رہ، کھاؤ، پیو، بسو لیکن جب آخرت کا فیصلہ آجائے تو اللہ اس پروری کائنات کو سمیٹ کر رکھ دے گا۔ فرعون اور آل فرعون کی بات کرنے کے بعد کلام کا رخ نبی کریم ﷺ اور آپ کے اوپر ایمان والوں کی طرف پھیر کر فرمایا کہ اللہ نے جس چیز کے کرنے اور جس چیز کے نہ کرنے کا حکم دیا ہے اس کو اسی طرح کیا جائے اور فرمایا کہ اے نبی ﷺ اس کی تعلیمات سے آپ اپنی امت کو اچھی طرح آگاہ کردیجیے۔ آپ کا کام خوش خبری دینا بھی ہے اور برائیوں کے برے انجام سے ڈرانا بھی ہے۔ فرمایا کہ اے نبی ! آپ پر اس قرآن کو آہستہ آہستہ نازل کیا گیا ہے آپ بھی اس قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے اس کے آداب کا خیال رکھیے اور اس کو آہستہ آہستہ تلاوت فرمائیے تاکہ یہ قرآن دلوں میں اترتا چلا جائے۔ فرمایا کہ اے نبی ! آپ سب کو بتا دیجیے کہ جس اللہ نے یہ کلام نازل کیا ہے اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو تمہارے حق میں بہتر ہے لیکن اگر تم نے اس کی اطاعت نہ کی تو اس سچائی کی روشنی میں ذرا بھی کمی نہ آسکے گی۔ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ قوموں کے ایک اچھے طرز عمل کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا کلام تلاوت کیا جاتا تھا تو اللہ کے احکامات کی عظمت کے سامنے ان کی گردنیں جھک جایا کرتی تھیں اور ان کی زبان پر یہی بات آتی تھی کہ اے ہمارے پروردگار ! آپ کی ذات پاک بےعیب ہے یقینا آپ نے جو وعدہ کیا ہے وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا اور اس طرح وہ اپنی ٹھوڑیاں جھکا نہایت ادب و احترام سے اللہ کی طرف روتے گڑگڑاتے ٹھوڑیوں کے بل گر پڑتے تھے اور وہ اسلام کی سچائی کو دل سے قبول کرتے تھے۔
Top