Baseerat-e-Quran - Al-Hijr : 61
فَلَمَّا جَآءَ اٰلَ لُوْطِ اِ۟لْمُرْسَلُوْنَۙ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَ : آئے اٰلَ لُوْطِ : لوط کے گھر والے الْمُرْسَلُوْنَ : بھیجے ہوئے (فرشتے)
پھر جب وہ بھیجے ہوئے (فرشتے) لوط کے گھر والوں کے پاس آئے
لغات القرآن آیت نمبر 61 تا 79 منکرون (منکر) ، اجنبی، نا آشنا ۔ یمترون (مترائ) ، وہ شک و شبہ کرتے ہیں۔ اسر تو چل دے، تو چل پڑ قطع ٹکڑا، حصہ ادبار صدبر) ، پیٹھ پیچھے۔ لایلتفت مڑ کر مت دیکھ۔ متوجہ نہ ہو۔ امضوا چلتے رہو، چلے جاؤ۔ حیث جیسے۔ تو مرون تمہیں حکم دیا گیا ہے ۔ قضینا ہم نے فیصلہ کردیا۔ دابر جڑ۔ ھولاء یہ سب ۔ مقطوع کاٹ دی گئی۔ مصبحین صبح ہوتے ہوئے۔ صبح صبح اھل المدینۃ شہر والے۔ یستبشرون خوش ہوتے ہیں۔ لاتفضحون تم مجھے رسوا نہ کرو۔ لاتخزون تم مجھے رنجیدہ نہ کرو ۔ ننھی ہم منع کرتے ہیں بنتی میری بیٹیاں (بڑوں کے لئے سب کی بیٹیاں اپنی بیٹیاں کہی جاتی ہیں) فعلین کرنے والے۔ لعمرک البتہ تیری جان (کی قسم) ۔ سکرہ نشہ، مدہوش۔ یعمھون مستی میں اندھا بن جاتے ہیں ۔ الصیحۃ چنگھاڑ، ہیبت ناک آواز ۔ مشرقین سورج نکلنے کے وقت۔ عالی بلند۔ سافل نیچے۔ امطرنا ہم نے برسایا۔ حجارۃ پتھر۔ سجیل کھردرا پتھر، پتھر نما۔ متوسمین غور و فکر کرنے والے۔ دھیان دینے والے ۔ مقیم سیدھا۔ امام سامنے، راستہ تشریح : آیت نمبر 61 تا 79 گزشتہ آیات میں اس بات کو تفصیل سے بیان کردیا گیا ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر بےانتہا مہربان ہے اور جو بھی دامن مراد پھیلا کر آتا ہے وہ اس کے دامن کو اپنی رحمتوں سے بھر دیتا ہے لیکن جب کوئی قوم اپنے برے اعمال اور نافرمانیوں میں حد سے آگے بڑھ جاتی ہے اور کسی نصیحت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی تب اللہ کا وہ فیصلہ آجاتا ہے جس کے بعد معافی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ آپ نے اسی سورت میں کفار و مشرکین کے اس مطالبہ کو پڑھ لیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اے نبی ﷺ ! اگر آپ سچے ہیں تو آپ کے ساتھ فرشتے کیوں نہیں بھیجے گئے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اللہ اس سے مجبور اور بےبس نہیں ہے لیکن اس کا اپنا قانون یہ ہے کہ فرشتے اس وقت بھیجے جاتے ہیں جب کسی قوم کی تقدیر کا آخری فیصلہ کر دیاجاتا ہے۔ چناچہ قوم لوط جو اپنی بیحیائی اور خلاف فطرت اعمال میں اتنی آگے بڑھ گئی تھی کہ انسانیت کو اس پر شرم آنے لگی تھی۔ تب اللہ نے چند خوبصورت لڑکوں کی شکل میں اپنے فرشتوں کو بھیجا تاکہ اس قوم کو آخری مرتبہ سمجھا دیا جائے۔ اگر اب بھی وہ ناسمجھی کی اس راہ پر چلتے رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر اللہ کا فیصلہ یعنی عذاب الٰہی اس قوم پر ٹوٹ پڑے گا۔ اور یہی ہوا حضرت ابراہیم کو حضرت سارہ کے بطن سے حضرت اسحاق کی خوش خبری سنا کر یہ فرشتے حضرت لوط کے گھر پہنچ گئے۔ حضرت لوط بھی ان فرشتوں کو پہچان نہ سکے اور کہنے لگے کہ شاید تم اجنبی ہو۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے لوط ہم تو اللہ کا وہ عذاب لے کر آئے ہیں جس کے متعلق ان لوگوں کا یہ گمان تھا کہ شاید ان پر عذاب الٰہی نہیں آئے گا۔ فرشتوں نے کہا کہ ہم اللہ کے حکم سے آئے ہیں اور اس قوم کا فیصلہ کردیا گیا ہے۔ لہٰذا آپ کے اہل خانہ اور آپ کے ماننے والے جب کچھ رات گذر جائے تو اس بستی سے اس طرح نکل جائیں کہ کوئی پیچھے پلٹ نہ کر دیکھے ہر شخص اس حکم کی تعمیل کرے جو اللہ کی طرف سے ان کو دیا گیا ہے۔ کیونکہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ جب اس قوم کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ دیا جائے گا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت لوط کی بیوی جو اللہ کے نافرمانوں کے ساتھ ملی ہوئی تھی اور اس نے ایمان قبول نہیں کیا تھا اس نے شہر کے لوگوں کو اس بات کی اطلاع کردی کہ حضرت لوط کے پاس کچھ خوبصورت لڑکے بطور مہمان آئے ہوئے ہیں۔ یہ قوم جو اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکی تھی یہ سن کر حضرت لوط کے دروازے پر پہنچ گئی اور انداز ایسا تھا جیسے ان لوگوں کو اس اطلاع سے بہت زیادہ خوشی ہوئی ہے کہ کچھ خوبصورت لڑکے ان کے شہر میں آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے آتے ہی اس بات کا مطالبہ کیا کہ اے لوط ان لڑکوں کو ہمارے حوالے کردیا جائے۔ حضرت لوط نے فرمایا کہ دیکھو یہ میرے مہمان ہیں مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو۔ اللہ کا خوف کرو اور مجھے رنجیدہ نہ کرو۔ لڑکیوں کی موجوگدی میں لڑکوں کی طرف کیوں مائل ہوتے ہو۔ ہماری بیٹیاں ہیں اگر تم ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو تو کونسی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا لوط ہم نے تم سے پہلے بھی کہا تھا کہ تم سارے جہاں کی حمایت نہ کیا کرو یعنی اپنے کام سے کام رکھو۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی عمر کی قسم کھا کر فرمایا کہ اے اے نبی ﷺ ! آپ کی عمر کی قسم وہ لوگ اپنی بدمستی میں اندھے بن چکے تھے یعنی ہر طرح کے خیر اور شرکا احسان ان کے دلوں سے مٹ چکا تھا۔ اس قوم کے لئے یہ آخری موقع تھا مگر اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے چناچہ حضرت لوط اور ان کے گھر والوں (سوائے ان کی بیوی کے) اور ان پر ایمان والوں کو نجات عطا کردی گئی اور پھر ان کی پوری بستی کو ان پر اس طرح الٹ دیا گیا کہ نیچے کی زمین اوپر آگئی اور اوپر کی زمین نیچے چلی گئی اور پتھروں کی بارش کردی گئی اور سمندر کا پانی ان کی بستیوں پر اس طرح چڑھا دیا گیا کہ آج اس سمندر کا جانور بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس سمندر کے غیض و غضب کا آج بھی یہ عالم ہے کہ اس پانی کو یہ بھی گوارا نہیں کہ اس میں کوئی کشتی چل سکے۔ سنا ہے کہ اگر کوئی اس پانی پر لیٹ جائے تو یہ سمندر اس کو ڈبوتا نہیں بلکہ کس بھی وجود کو اپنے اندر لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ غرضیکہ سمندر کے اس پانی کو ان کی بستیوں پر چڑھا کر ان کو ڈبو دیا گیا۔ ان پر پہلے پتھروں کی بارش کی گئی پھر پوری بستیوں کو ان پر الٹ دیا گیا۔ آج یہ قوم اپنے برے اعمال کی وجہ سے ساری دنیا کے لئے نشان عبرت بن کرگئی ہے۔ اس واقعہ کو بیان کر کے اللہ نے ” اصحاب الایکہ “ کی نافرمانیوں اور ان کی تباہی کا بھی ذکر کیا ہے ایکہ کے معنی گھنے اور گنجان درخت کے ہیں۔ یہ حضرت شعیب کی قوم تھی یعنی بن اور جنگل والے۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اہل مدین اور اصحاب الایکہ ایک ہی قوم کے دو نام ہیں۔ ان کی ہدایت کے لئے حضرت شعیب کو بھیجا گیا تھا۔ یہ قوم بھی بہت ظالم و جابر کفر و شرک ڈاکہ زنی اور ناپ تول میں کمی اور عیاشیوں میں بہت مشہور ہے۔ اس قوم کا بھی یہی حال ہوا کہ جب ان کی نافرمانیاں حد سے بڑھ گئیں اور حضرت شعیب کی بات کو انہوں نے نہیں مانا آخر کار اللہ کا فیصلہ آگیا سات دن اور سات رات اتنی شدید گرمی پڑی کہ اس گرمی سے وہ لوگ بوکھلا اٹھے۔ آٹھویں دن بڑے گہرے بادل فضاؤں پر چھا گئے وہ قوم بہت خوش تھی کہ اب بارش ہوگی اور گرمی کی یہ شدت کم ہوجائے گی۔ مگر اچانک ان بادلوں سے آگ برسنا شروع ہوگئی اور پوری قوم راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گئی وہ ان کی عمارتیں، خوبصورت سڑکیں اونچی اونچی بلڈنگیں ۔ مال و دولت قوم وو طاقت سب ایک لمحہ میں بھسم ہو کر رہ گئی مدینہ منورہ سے ملک شام کی طرف جاتے ہوئے آج ان کی بستیوں کے کھنڈرات اور جلی ہوئی بستیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان آیات میں چند باتوں کی مزید وضاحت عرض ہے : 1) قوم لوط کو خلاف فطرت جس فعل کی اتنی بھیانک سزا دی گئی کہ آج بحرمیت معمولی سی جان کو بھی اپنے اندر پنپنے کا موقع نہیں دیتا اور کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ ہمارے دور میں پھر سا فعل بد کو بڑے پیمانے پر تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ قوم لوط کا تو یہ جرم تھا کہ لڑکوں سے بدفعلی کرتے تھے۔ ان کے فیشن اور معاشرہ کا ایک حصہ بن گیا تھا۔ لیکن آج کل یورپ اور بر اعظم امریکہ میں تو اس بات کو بھی قانونی تحفظ دیدیا گیا ہے کہ ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ شادی کرسکتی ہے۔ شادی کا تو صرف نام ہے درحقیقت یہ بھی بدکاری کو تحفظ دینا ہے۔ اسی طرح ہر مرد مرد سے شادی کرسکتا ہے اس کو بھی قانونی تحفظ دیدیا گیا ہے آج جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایسے بدکار مرد اور بد کار عورتیں جلوس نکال کر اپنے حقوق اور مزید آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور جمہوریت کے نام پر یہ حکومتیں مجبور ہیں کہ جو عوام چاہتے ہیں وہی کام کئے جائیں۔ مجھے ایک بہت بڑا ڈر ہے کہ ان بدکاروں کی وجہ سے ایک دفعہ پھر یہ ساری دنیا تباہ و برباد ہو کر نہ رہ جائے۔ آثار تو شروع ہوچکے ہیں اور یہ پیشین گوئیاں شروع ہوچکی ہیں کہ امریکہ کا آدھا حصہ کسی بھی وقت کسی زلزلے کے نتیجے میں سمندر کے نیچے چلا جائے گا۔ یہ ہماری ظاہری آنکھیں دیکھ رہی ہیں نجانے قدرت کا کیا فیصلہ ہے اس کا تو کسی کو علم نہیں ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا اس فعل بد کی وجہ سے تباہ و برباد ہو کر رہ جائے۔ 2) دوسری بات یہ ہے کہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کو بتا دیا کہ نجات صرف ان ہی لوگوں کو مل سکتی ہے اور ملتی رہی ہے جنہوں نے اللہ سے اور اس کے رسولوں سے وابستگی اختیار کی ہے۔ چناچہ حضرت لوط اور حضرت شعیب کے ان لوگوں کو بچا لیا گیا جو صاحب ایمان تھے اور بےایمانوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا گیا۔ 3) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی عمر کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ اے نبی تمہاری جان کی قسم یہ قوم اپنی بدمستی میں اندھی ہوچکی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں زمین و آسمان، چاند، سورج اور ستاروں کی قسم کھائی ہے جو اس کی شان کے مطابق ہے اور سات مقامات پر اللہ نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے اور اس جگہ اللہ نے نبی کریم ﷺ کی عمر کی قسم کھائی ہے حضرت ابن عباس نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی عمر مبارک کی قسم کھائی ہے یہ وہ اعزاز اور شرف ہے جو کسی نبی کو حاصل نہیں ہوا۔ اس سے معلمو ہوا کہ تمام انبیاء کرام میں نبی کریم ﷺ سب سے افضل و برتر ہیں۔ عرب کا عام رواج یہ تھا کہ جب کسی چیز کی قسم کھائی جاتی تھی تو وہ اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ جو بات کی جا رہی ہے وہ یقینی ہے۔ ہمیں اور آپ کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بھی قسم کھائیں لیکن اللہ جس چیز کی بھی قسم کھائیں یہ ان کی شان کے مطابق ہے کیونکہ ساری کائنات ان ہی کی ملکیت ہے۔
Top