Baseerat-e-Quran - Al-Hijr : 5
مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَهَا وَ مَا یَسْتَاْخِرُوْنَ
مَا تَسْبِقُ : نہ سبقت کرتی ہے مِنْ اُمَّةٍ : کوئی امت اَجَلَهَا : اپنا مقررہ وقت وَمَا : اور نہ يَسْتَاْخِرُوْنَ : وہ پیچھے رہتے ہیں
کوئی قوم اپنی مقررہ مدت سے پہلے ہلاک ہوئی ہے اور نہ بعد میں۔
لغات القرآن آیت نمبر 6 تا 9 یایھا اے (حرف ندا) ۔ نزل نازل کیا گیا، اتارا گیا ۔ الذکر یاد دھانی کی چیز۔ قرآن مجید۔ مجنون دیوانہ، اگل۔ تاتینا تو ہمارے پاس آتا ہے۔ ماننزل ہم نازل نہیں کرتے اذا اس وقت۔ انا بیشک ہم۔ نحن ہم سب حافظون حفاظت کرنے والے ۔ تشریح : آیت نمبر 6 تا 9 جب نبی کریم ﷺ مکی زندگی میں کفار اور مشرکین کو اللہ کے دین اور آخرت کی ابدی سچائیوں کی طرف بلاتے تب وہ اپنی روایتی ضد، عناد، ہٹ دھرمی اور جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے کہ اگر آپ سچے ہیں تو آپ کے ساتھ فرشتوں کو ہونا چاہئے تھا جو اس بات کی علامت ہوتے کہ آپ سچے نبی ہیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے تو یہ سوائے جنون اور دیوانگی کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ کی قدرت سے یہ بات بعید نہیں ہے کہ وہ فرشتوں کو نازل کر دے مگر اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کو عذاب دینے کا فیصلہ کرلیتا ہے تب وہ اپنے فرشتوں کو بھیجتا ہے اور جب وہ فیصلہ کر کے اپنے فرشتوں کو بھیج دیتا ہے تو پھر کسی قوم کو مزید مہلت عمل نہیں دی جاتی بلکہ جڑ و بنیاد سے اکھاڑ دینے کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے۔ گزشتہ قوموں کی تاریخ اس سچائی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کا یہ جملہ نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں اے وہ کہ جس پر ذکر اتارا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اس کا جواب دیا گیا ہے کہ بیشک وہ قرآن جس کو ہم نے انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا ہے وہ ” ذکر “ ہی ہے۔ وہ ہمارا کلام ہے اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ہماری ہی ہے۔ ہم اپنے اس قرآن اور ذکر کی حفاظت خود کریں گے اور کسی انسان کے ذمے یہ کام نہیں لگائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کا یہ جملہ نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں اے وہ کہ جس پر ذکر اتارا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اس کا جواب دیا گیا ہے کہ بیشک وہ قرآن جس کو ہم نے انسانوں کی ہدایت کیلئے نازل کیا ہے وہ ” ذکر “ ہی ہے۔ وہ ہمارا کلام ہے اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ہماری ہی ہے۔ ہم اپنے اس قرآن اور ذکر کی حفاظت خود کریں گے اور کسی انسان کے ذمے یہ کام نہیں لگائیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کریم کی حفاظت کچھ اس طرح سے کی ہے کہ اگر مسلمان عمل سے دور ہوگئے اور انہوں نے خدمت قرآن کو چھوڑ دیا تو اللہ نے دشمنان قرآن کو ایمان کی دولت سے نواز کو محافظ قرار بنا دیا ۔ اس کی سب سے بڑی مثال تیرہویں صدی کا وہ عظیم الشان تاریخی واقعہ ہے جب تاتاریوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی تھی۔ مسلمانوں کی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کئے گئے، خون کی ندیاں بہا دی گئیں، ان کے کتاب خانے اور ان کی علمی کاوشوں کو تاتاریوں نے تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ کبھی دجلہ و فرات کا پانی ان کمزور مسلمان کے خون سے رنگین ہوگیا۔ کبھی ان کی کتابوں کی سیاہی سے پانی کا رنگ کالا ہوگیا۔ ان حالات کو دیکھ کر کمزور ایمان کے لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ اب دنیا سے اسلام اور قرآن مٹ جائیں گے لیکن اچانک اللہ نے تاتاریوں کو ایمان کی توفیق عطا فرما دی اور وہ ایمان قبول کر کے محافظ قرآن بن گئے۔ قرآن کریم کا ایک ایک لفظ محفوظ ہے۔ اس کی تعلیمات اور انداز تعلیم تک محفوظ ہے۔ قرآن کریم اور احادیث رسول ﷺ صرف کاغذوں کی حد تک نہیں بلکہ اہل ایمان کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ آج دنیا میں اس قرآن کے تقریباً تین لاکھ حافظ قرآن موجود ہیں جن کے سینے قرآن کے نور سے منورہ روشن ہیں۔ صرف الفاظ کی حد تک نہیں بلکہ احادیث رسول اللہ ﷺ اور اللہ کے آخری نبی ﷺ کی ایک ایک ادا کے ہزاروں حافظ گذرے ہیں۔ علماء امت نے دین کی حفاظت کے لئے وہ کچھ کیا جو کسی امت نے نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے غریب مسلمانوں کو اس مقصد کے لئے منتخب فرما اپنی کہ ان سے حفاظت قرآن کا وعدہ پورا کیا۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ قرآن کریم دنیا میں سب سے طاقتور چیز ہے۔ جیسا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ اگر ہم اس ذکر کو یقینی قرآن کریم کو کسی پہاڑ پر نازل کردیتے تو وہ اس کے بوجھ کو کسی طرح برداشت نہ کرسکتا لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن جیسی طاقت کی حفاظت ہمیشہ معاشرہ کے کمزور اور غریب لوگوں نے کی ہے۔ آج بھی اگر دیکھا جائے تو تین لاکھ حافظان قرآن یا صبح و شام تلاوت کرنے والے یا قرآن و حدیث پڑھنے پڑھانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس دنیاوی دولت نہیں ہوتی وہ معاشرہ کے غریب اور کمزور لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے دل قرآن کریم کے نور سے منور و روشن ہوت یہیں اور وہ اس دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ یوں تو اللہ جس کو بھی توفیق عطا فرما دے لیکن میں نے عام طور پر دیکھا ہے کہ جس کے پاس چار پیسے آجاتے ہیں وہ تو اپنے بچے کو قرآن حفیظ یاد کرنے کرانے کو وقت ضائع کرنے کے برابر سمجھنے لگتا ہے۔ سوائے اللہ کی ان بندوں کے جن کے پاس غربت یا دولت مندی دونوں برابر ہوتی ہیں وہ اپنے بچوں کو دین پر قائم رکھتے ہیں۔ میرے کہنے کا منشا یہ ہے کہ عام طور پر کسی وزیر، بڑے سرمائے دار، و ڈیرے ، اور سرداروں کے بچے حافظان قرآن اور عالم دین نہیں ہوتے بلکہ غریب و مفلس گھرانے کے بچے قرآن کریم حافظ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ساری دنیا پر یہ واضع کردینا چاہتا ہے کہ اس کائنات میں ساری قوت و طاقت کا مالک صرف اللہ ہے وہ جس سے چاہے اپنے قرآن کی حفاظت کرالے لیکن اس نے اس قرآن جیسی طاقت کی حفاظت ہمیشہ غریبوں اور کمزوروں سے کرائی ہے۔ وہ کسی کی طاقت و قوت کا محتاج نہیں ہے۔
Top