Baseerat-e-Quran - Al-Hijr : 16
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَۙ
وَلَقَدْ جَعَلْنَا : اور یقیناً ہم نے بنائے فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّزَيَّنّٰهَا : اور اسے زینت دی لِلنّٰظِرِيْنَ : دیکھنے والوں کے لیے
اور بیشک ہم نے آسمان میں ایسے برج (قلعے) بنا دیئے جنہیں دیکھنے والوں کے لئے خوبصورت بنا دیا گیا ہے
لغات القرآن آیت نمبر 16 تا 25 بروج (برج) اونچی اور بلند عمارت، قلعے۔ زینا ہم نے زینت دی، خوبصورت بنایا۔ نظرین دیکھنے والے۔ حفظنا ہم نے حفاظت کی رجیم مردود، نکالا گیا ۔ استرق (استراق) جس نے چوری سے کوئی چیز اڑا لی ہو ۔ السمع سننا اتبع پیچھے لگ گیا شھاب انگارا۔ آگ مدد پھیلا دیا۔ القینا ہم نے ڈال دیا۔ رواسی بوجھ۔ پہاڑ ۔ انبتنا ہم نے اگایا موزون اندازہ، مقدار۔ معایش زندگی گذارنے کا سامان۔ لستم تم نہیں ہو۔ خزائن خزانے ، ذخیرہ۔ قدر معلوم اندازے مقرر، متعین الریح (ریح) ہوائیں لواقع (لاقحۃ ) بوجھل بھرپور اسقینا ہم نے سیراب کردیا۔ پلایا ۔ خازنین خزانے والے نحی ہم زندگی دیتے ہیں نمیت ہم موت دیتے ہیں ۔ الوارثون مالک، وارث علمنا ہم نے جان لیا۔ المستقدمین (استقدام) آگے رہنے والے المستاخرین پیچھے رہنے والے یحشر وہ جمع کرے گا۔ تشریح : آیت نمبر 16 تا 25 اس سے پہلی آیات میں ارشاد فرمایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو نازل فرمایا جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے خود ہی اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ اسی طرح وہ اللہ انبیاء کرام اور ان کی نبوت کا بھی محفاظ و نگران ہے کفار و مشرکین استھزاء اور مذاق کے ذریعہ اس نور کو بجھانے کی کوشش میں کسر اٹھا نہیں رکھتے ہر طرح کے ظلم و ستم، زیادتیوں اور مذاق کے ہتھیار استعمال کر کے انبیاء کرام کو مغلوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو ہر طرح کا غلبہ و قوت عطا فرما کر کفار و مشرکین کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ انکار نبوت کی نحوستوں کے بعد انکار توحید کرنے والوں کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ کیا یہ لوگ اس کائنات کو دیکھ کر اتنا بھی غور نہیں کرتے کہ : 1) اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایک خاص انداز سے ترتیب دیا ہے جس میں روشنیوں کو اس نے پھیلا دیا ہے بڑے بڑے ستارے، سیارے بنائے جن کو انسان رات دن کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے آسمان کی بلندیوں کو اتنا حسین اور خوبصورت بنایا ہے کہ جب رات کو چاند اور ستارے چمکتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے اللہ نے کہکشاں بکھیر دی ہے۔ انہوں نے کبھی غور نہیں کیا کہ اتنا بڑا نظام کس نے پیدا کیا یقینا وہ ایک اللہ کی ذات ہے اسی نے اس کائنات اور اس کی خوبصورتیوں کو پیدا کیا وہی اس کا محافظ ، نگراں اورس نبھالنے والا ہے۔ جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لئے ہزاروں نشانیاں ان ہی میں موجود ہیں۔ 2) پھر آسمانوں پر شیطان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ شیطان اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ آسمانوں کی طرف بلند ہو کر فرشتوں کی گفتگو سے آئندہ ہونے والے حالات کی کچھ سن گن لیں۔ پہلے اس کی کسی حد تک اجازت بھی تھی لیکن نبی کریم ﷺ کے زمانے میں اس کی بھی ممانعت کردی گئی ہے۔ اب اگر وہ جنات و شیاطین آسمانوں کی طرف بلند ہونا چاہتے ہیں تاکہ وہاں کی کچھ خبریں حاصل کرسکیں تو ان پر (شہاب ثاقب) شعلوں کی بارش کردی جاتی ہے تاکہ وہ کسی بات کو چوری چھپے بھی نہ سن سکیں۔ 3) اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے زمین کو بڑی وسعت دی ہے اس کو خوب پھیلایا ہے۔ اس میں طرح طرح کے پھل پیدا کئے انسانی ضروریات کی تمام چیزوں کو پیدا کیا اور اس میں ایک ایسا تو ازن پیدا کردیا تاکہ ہر چیز ایک تعداد اور اندازے کے مطابق ہو۔ فرمایا کہ یہ اللہ ہی کا کرم ہے کہ اس نے پہاڑوں کو میخوں کی طرح زمین میں گاڑ دیا تاکہ زمین اپنا تو ازن برقرار رکھ سکے اور ادھر ادھر ڈھلک نہ جائے۔ اسی زمین میں جہاں انسانوں کے لئے ہر چیز پیدا کی وہیں جانوروں کے لئے بھی غذا پیدا کی گئی۔ حالانکہ اصولاً تو ان جانوروں کا رزق انسانوں کے ذمے ہونا چاہئے تھا کیونکہ وہ ان کو استعمال کرتے ہیں لیکن فرمایا کہ انسان ہوں یا جانور زمین پر رینگنے والے، سمندروں میں پلنے والے جانور اور فضاؤں میں اڑنے والے پرندوں کا رزق ہمارے ذمے ہے انسان کی یہ ذمہ داری نہیں رکھی گئی۔ فرمایا کہ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا اتنا بڑا نظام خود بخود چل رہا ہے ؟ حالانکہ زمین و آسمان کا یہ پورا نظام اپنے خالق ومالک کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ کوئی ذات ہے جو اس پورے نظام کو چلا رہی ہے۔ فرمایا کہ ہم نے ہر چیز کو ایک خاص تعداد، اندازے اور تو ازن سے پیدا کیا ہے۔ زمین میں اتنے خزانے چھپا دیئے ہیں کہ وہ ہر دور کے انسانوں کی ضرورت کے لئے کافی ہیں۔ 4) پھر فرمایا کہ ہم نے صرف زمین ہی نہیں بنائی بلکہ اس زمین کو سیراب کرنے کا بھی ایک نظام بنایا ہے خوب ہوائیں چلائیں جو بادلوں کو لے کر چلتی ہیں۔ پھر اللہ جہاں چاہتا ہے ان بادلوں سے پانی برسا دیتا ہے جس سے زمین کی پیاس بجھ جاتی ہے اور مردہ زمین کو ایک نئی زندگی مل جاتی ہے۔ اس پانی سے نہریں چشمے دریا اور ندیاں بہتی ہیں جو پورے سال مستقل اس زمین پر رہنے والے انسانوں کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ حالانکہ یہ دنیا ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں بنائی بلکہ وقتی گذارے کے لئے بنائی گئی ہے۔ آخر کار یہ زمین بھی فنا کردی جائے گی صرف ایک اللہ کی ذات باقی رہے گی۔ وہ اللہ تمام انسانوں کو دوبارہ پیدا فرمائے گا اور ایک میدان میں جمع کر کے ان سے پوری زندگی کا حساب لے گا۔ جو لوگ نیکیوں اور پرہیزگاری کے ساتھ زندگی گذار کر آئیں گے ان کے لئے جنت کی ابدی راحتیں ہوں گی لیکن جو لوگ اللہ کی نافرمانی میں زندگی گذار کر آئے ہوں گے ان کے لئے ابدی جہنم اور اس کی آگ ہوگی۔
Top