آیت نمبر 11, 10, 9, 8
تفسیر : (وقالوا لولاانزل علیہ) محمد ﷺ پر (ملک ط ولوانزلنا ملکا لقضی الامر) یعنی عذاب واجب ہوجائے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کفار کے معاملہ میں طریقہ رہا ہے کہ جب وہ کسی نشانی کا مطالبہ کریں اور وہا تاری جائے اس کے بعد بھی ایمان نہ لائیں تو عذاب کے ذریعے ان کو جڑ سے اکھاڑ دیا جاتا ہے ( ثم لاینظرون) یعنی نہ ان کو کوئی مدت میعاد دی جائے گی اور نہ ہی مہلت دیئے جائیں گے۔ قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر ہم فرشتہ اتارتے پھر وہ ایمان نہ لاتے تو ان پر جلدی عذاب آجاتا اور آنکھ جھپکنے کی مہلت نہ دی جاتی اور مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ ” لقضی الامر “ یعنی قیامت قائم ہوجاتی اور ضحاک (رح) کہتے ہیں کہ اگر فرشتہ اپنی صورت میں ان کے پاس آتا تو وہ سب مرجاتے۔
(ولوجعلنہ ملکا) یعنی اگر ان کی طرف کوئی فرشتے بھیجتے ( لجعلنہ رجلا) کیونکہ وہ فرشتہ کی طرف دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے اور جبرئیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ کے پاس وحیہ کلبی ؓ کی شکل میں آتے تھے اور دو فرشتے دائود (علیہ السلام) کے پاس دو مردوں کی صورت میں آئے ( وللبسنا علیھم مایلبسون) یعنی ان پر معاملہ مشتبہ کردیتے تو ان کو پتہ نہ چلات کہ یہ فرشتہ ہے یا آدمی۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ وہ اہل کتاب جنہوں نے اپنے دین میں فرقے کئے اور کلمات کو ان کی جگہ سے پھیرا تو اللہ نے ان پر معاملہ مشتبہ کردیا جو انہوں نے اپنے اوپر مشتبہ کیا تھا۔ اور زہری (رح) نے (للبسنا) شد کے ساتھ پڑھا ہے تکریر اور تاکید کی بنائپر۔
(ولقد استھزی برسل من قبلک) جسا کہ آپ (علیہ السلام) کے ساتھ ہنسی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے نبی کریم ﷺ کو تسلی دی ہے ( فحاق بالذین سخروا منھم ما کانوا بہ یستھزء ون) ان کے استہزاء کے بدلے عذاب نے ۔
(قل) اے محمد ! ( ﷺ) ان جھٹلانے والوں اور ہنسی کرنے والوں کو ( سیرو فی الارض) عبرت حاصل کرنے کے لیے ( ثم انظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین) ان کے معاملہ کی جزاء کیا ہوئی ؟ اور کفر اور تکذیب نے ان کو کیسے ہلاک کردیا۔ اس آیت میں کفار مکہ کو پہلی امتوں کے عذاب سے ڈرایا جارہا ہے۔