Tafseer-e-Baghwi - Al-An'aam : 4
وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ
وَ : اور مَا تَاْتِيْهِمْ : ان کے پاس نہیں آئی مِّنْ : سے۔ کوئی اٰيَةٍ : نشانی مِّنْ : سے اٰيٰتِ : نشانیاں رَبِّهِمْ : ان کا رب اِلَّا : مگر كَانُوْا : وہ ہوتے ہیں عَنْهَا : اس سے مُعْرِضِيْنَ : منہ پھیرنے والے
اور خدا کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ان لوگوں کے پاس نہیں آتی مگر یہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
آیت نمبر 7, 6, 5, 4 تفسیر : (وما تاتیھم) یعنی مکہ والوں کے پاس ( من ایۃ من ایت ربھم) جسے چاند کا ٹکڑے ہونا وغیرہ اور عطاء فرماتے ہیں کہ قرآن کی آیات مراد ہیں (الا کانوا عنھا معرضین) یعنی اس کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس کو جھٹلاتے ہیں۔ (فقد کذبوا بالحق) یعنی قرآن کو اور کہا گیا ہے کہ محمد ﷺ مراد ہیں (لما جاء ھم ط فسوف یاتیھم ام نبوا ما کانوا بہ یستھزء ون) یعنی انکے ستہزاء کی خبر اور اس کا بدلہ یعنی عنقریب اپنے استعزاء کا انجام جان لیں گے جب ان کو عذاب دیا جائے گا۔ (الم یروا کم اھلکنامن قبلھم من قرن) قرن کی تفسیر یعنی پہلی امتیں اور قرن لوگوں کی جماعت اس کی جمع قرون آتی ہے اور کہا گیا ہے کہ زمانے کی ایک مدت کو قرن کہتے ہیں۔ بعض نے وہ مدت اسی سال بعض نے ساٹھ سال بعض نے چالیس اور بعض نے تیس سال بتائی ہے اور سو سال کو بھی قرن کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں کہ نبی کریم ﷺ نے عبداللہ بن بشر مازنی ؓ کو کہا کہ آپ ایک قرن زندہ رہیں گے تو وہ سو سال زندہ رہے۔ ان تمام اقوال کے مطابق معنی یہ ہے کہ اہل قرآن کو ( مکنھم فی الارض مالم نمکن لکم ) یعنی ان کو وہ کچھ دیا جو تمہیں نہیں دیا اور ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے ان کو عمر میں مہلت دی جیسے نوح (علیہ السلام) کی قوم اور عادو ثمود کو کہا جاتا ہے ومکنت لہ۔ (وارسلنا السماء علیھم مذوارا) یعنی بارش کو۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ” مددادا “ کا معنی یہ ہے کہ ضرورت کے وقت میں لگاتار برستی تھی اور باری تعالیٰ کا قول ( مالم نمکن لکم) خطاب تلوین ہے۔ اپنے قول ( لام یروا) خبر سے خطاب کی طرف رجوع کیا ہے جیسے باری تعالیٰ کا قول ( حتی اذا کنتم فی الفلک وجرین بھمض ہے اور اہل بصرہ فرماتے ہیں ان کی خبر دی ۔ ( الم یروا) اس میں محمد ﷺ اور صحابہ کرام ؓ شامل تھے پھر ان کو ان کے ساتھ خطاب کیا۔ ( وجعلنا الانھر تجری من تحتھم فاھلکتھم بذنوبھم وآنشانا من م بعدھم قرنا اخرین ہم نے اس کو پیدا کیا اور اس کی ابتداء کی) کلبی اور مقاتل رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت نضر بن حارث اور عبداللہ بن ابی امیہ اور نوفل بن خویلد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ کہنے لگے اے محمد ! ہم آپ پر تب تک ایمان نہ لائیں گے جب تک آپ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے یو لکھا ہوا نہ لائیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور چار فرشتے گواہ ہوں جو بتائیں کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہے اور آپ اس کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ولو نزلنا علیک کتبا فی قرطاس جو ان کے پاس لکھا ہوا موجود ہے۔ (فلمسوہ بایدیھم ) یعنی اس کا معائنہ کرکے اپنے ہاتھ سے چھولیں۔ آیت میں صرف چھونے کا ذکر ہے معائنہ کا نہیں کیونکہ چھونے سے معائنہ کی بنسبت زیادہ علم حاصل ہوتا ہے کیونکہ جادو کا اثر آنکھوں سے دیکھی جانے والی چیز پر تو ہوجاتا ہے لیکن چھونے والی چیز پر نہیں ہوتا۔ ( لقال الذین کفروا ان ھذا الا سحر مبین) مطلب یہ ہے کہ ان کو کوئی چیز نفع نہ دے گی کیونکہ ان کے بارے میں میرے علم میں یہی ہے۔
Top