Tafseer-e-Baghwi - Al-An'aam : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًا١ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے طِيْنٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَضٰٓى : مقرر کیا اَجَلًا : ایک وقت وَاَجَلٌ : اور ایک وقت مُّسَمًّى : مقرر عِنْدَهٗ : اس کے ہاں ثُمَّ : پھر اَنْتُمْ : تم تَمْتَرُوْنَ : شک کرتے ہو
وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر (مرنے کا) ایک وقت مقرر کردیا۔ اور ایک مدت اسکے ہاں اور مقرر ہے پھر بھی تم (اے کافرو خدا کے بارے میں) شک کرتے ہو۔
آیت نمبر 3, 2 تفسیر : (ھوالذی خلقکم من طین) یعنی آدم (علیہ السلام) کو۔ تمام لوگوں کو یہ خطاب اس وجہ سے کیا کہ وہ آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں۔ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کیلئے زمین سے مٹی لینے کا واقعہ سدی (رح) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جبرئیل (علیہ السلام) کو زمین کی طرف بھیجا ہ اس کا کچھ حصہ لائیں تو زمین نے کہا کہ میں اللہ کی پناہ مانگتی ہوں تجھ سے کہ تو میرا کوئی حصہ کم کرے تو جبرئیل (علیہ السلام) خالی ہاتھ واپس لوٹ گئے اور کچھ نہ لیا ا ور کہا اے میرے رب ! اس نے آپ کی پناہ لی ہے۔ پھر میکائیل (علیہ السلام) کو بھیجا تو وہی معاملہ ہوا پھر موت کے فرشتے کو بھیجا۔ اس نے اللہ کی پناہ مانگی تو اس نے کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ اس کے حکم کی مخالفت کروں تو زمین سے مٹی لی اور سرخ ، سیاہ اور سفید مٹی کو ملا دیا۔ اسی وجہ سے بنی آدم کے رنگ مختلف ہوگئے پھر اس کو میٹھے ، نمکین اور کڑوے پانی سے گوندھا تو اس وجہ سے ان کے اخلاق مختلف ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے موت کے فرشتے کو کہا کہ جبرئیل اور میکا ئیل (علیہما السلام) نے زمین پر رحم کیا اور تونے رحم نہیں کیا تو اس مٹی سے میں جن کو پیدا کروں گا ان کی روح بھی تو اپنے ہاتھ سے نکالنا ۔ ( ثم قضی اجلا ط واجل مسمی عندہ پھر مقرر کردیا ایک وقت اور ایک مدت مقرر ہے اللہ کے نزدیک) ثم قضی اجلاً کی تفسیر حسن ، قتادہ اور ضحاک رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ پہلے اجل سے مراد ولادت سے موت تک کا وقت ہے اور دوسرے اجل سے موت سے دوبارہ اٹھنے تک کا اور وہ برزخ ہے اور یہی بات ابن عباس ؓ سے مروی ہے اور انہوں نے فرمایا کہ ہر ایک کے لیے دو مدتیں ہیں ایک مدت پیدائش سے موت تک اور دوسری موت سے بعثت تک۔ پس اگر نیک، متقی اور رشتوں کو جوڑنے والا ہو تو اس کی بعثت کی مدت سے زندگی کی موت میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور اگر گناہ گار رشتوں کو توڑنے والا ہو تو اس کی عمر کی مدت میں کمی ہوجاتی ہے اور بعثت کی مدت میں اضافہ اور مجاہد (رح) اور سعید بن جبیر ؓ فرماتے ہیں کہ پہلی مدت دنیا کی اور دوسری آخرت کی ہے اور عطاء (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ” ثم قضیٰ اجلاً “ سے مراد نیند ہے کہ اس میں روح قبض کی جاتی ہے اور پھر بیداری کے وقت لوٹا دی جاتی ہے۔ ” واجل مسمی عندہ “ سے موت کا وقت مراد ہے ۔ (ثم انتم تمترون) (وھواللہ فی السموت وفی الارض) یعنی آسمانوں اور زمین کا معبود اللہ ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ( اور وہی ہے آسمان میں معبود اور زمین میں معبود) اور محمد بن جریر (رح) نے کہا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ آسمانوں میں ہے تمہارے پوشیدہ اور ظاہر کو زمین میں جانتا ہے اور زجاج فرماتے ہیں کہ آیت میں تقدیم و تاخیر ہے یعنی اور وہ علم سرکم وجھرکم اللہ جانتا ہے تمہارے پوشیدہ اور ظاہر کو آسمانوں اور زمین ( ویعلم ماتکسبون اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو) جو تم نیر اور شر کو جاتنے ہو۔
Top