Tafseer-e-Baghwi - Al-An'aam : 18
وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ١ؕ وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْخَبِیْرُ
وَهُوَ : اور وہ الْقَاهِرُ : غالب فَوْقَ : اوپر عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَهُوَ : اور وہ الْحَكِيْمُ : حکمت والا الْخَبِيْرُ : خبر رکھنے والا
اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ دانا اور خبردار ہے۔
آیت نمبر 20, 19, 18 تفسیر : (وھوالقاھر فوق عبادہ) وہ غالب ہے اور بعض نے کہا ہے کہ وہ تدبیر میں منفرد ہے۔ مخلوق کو اپنی تدبیر پر مجبور کرتا ہے۔ فوق عبادہ یہ غلب کی صفت ہے جو تنہا اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے کے معنی میں قدرت کے معنی سے زیادتی ہے۔ اس کا معنی دوسرے کو مراد کے پہنچنے سے روکنا ( وھوالحکیم) اپنے کاموں میں (الخبیر) اپنے بندوں کے اعمال کی۔ (قل ای شیء اکبر شھادۃ) کلبی (رح) فرماتے ہیں کہ مکہ والے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے ہمیں وہ شخص دکھائیں جو یہ گواہی دے کہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں کیونکہ ہم نے کسی کو نہیں دیکھا ک وہ آپ کی تصدیق کرتا ہو اور ہم نے آپ کے بارے میں یہود و نصاریٰ سے بھی پوچھا ہے۔ ان کا گمان یہ ہے کہ ان کی کتابوں میں آپ کا تذکرہ نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (قل ای شیء اکبر شھادۃ ) (اگر وہ اس کا جواب دیں وگرنہ قل اللہ شھید م بینی وبینکم ) جو کچھ میں کہتا ہوں وہ میرے لیے حق ہونے کی اور تمہارے اوپر باطل ہو نیکی گواہی دیتا ہے۔ (واوحی الی ھذا القرآن لاندر کم بہ ومن م بلغ) یعنی قیامت تک عجم اور دیگر قوموں تک پہنچے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھ سے پہنچائو اگرچہ ایک آیت ہو اور بنی اسرائیل سے باتیں نقل کرو اس میں کوئی حرج نہیں اور جس نے مجھ پر جھوٹ بولا جان بوجھ کر وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ عبدالرحمن اپنے والد عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ترو تازہ رکھیں اس بندہ کو جس نے میری بات سنی پھر اس کو یاد کیا اور آپ سے پہنچایا۔ پس بہت سے فقہ کو اٹھانے والے جو خود فقیہ نہیں ہیں اور بہت سے فقہ کو اٹھانے والے اس شخص کی طرف جو ان سے زیادہ سمجھ دار ہے ۔ تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان پر کینہ نہیں کرتا، مسلمان کا دل ہمیشہ اللہ کے لیے عمل کو خاص کرنا اور مسلمانوں کی خیر خواہی اور ان کی جماعت کو لازم پکڑنا کیونکہ ان کی دعا ان کے علاوہ کو بھی گیھر لیتی ہے۔ مقاتل (رح) کہتے ہیں انسانوں اور جنوں میں سے جس تک قرآن پہنچ گیا تو قرآن اس کے لیے نذیر ہ۔ محمد بن کعب قرظی (رح) کہتے ہیں کہ جس شخص تک قرآن پہنچ گیا گویا کہ اس نے محمد ﷺ کو دیکھا اور ان سے سنا ( اتنکم لعشھدون ان مع اللہ الھۃ اخری) اس لیے کہ تانیث جمع کو لاحق ہوجاتی ہے جیسیے باری تعالیٰ کا قول ( واللہ الاسماء الحسنی فادعوہ بھا) ہے اور فرمایا فما بال القرون الاولی قل لا اشھد تو کہے دے اے محمد ﷺ آپ گواہی دیں تو میں تو گواہی نہ دوں گا) کہ اس کے ساتھ کوئی معبود ہے ( قل انما ھو الہ واحد واننی بریء مما تشرکون) (الذین اتنھم الکتب) توریت اور انجیل ( یعرفونہ) یعنی محمد ﷺ کو ان کی صفات کے ساتھ ( کما یعرفون ابناء ھم) بچوں کے درمیان سے ( الذین خسرو انفسھم فھم لایومنون) جو لوگ نقصان میں ڈال چکے۔ یعنی غبن فاش۔ یہ نقصان اس طرح ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کا ٹھکانہ جنت اور جہنم میں بنایا ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو جہنمیوں کے جتنی ٹھکانے دیں گے اور جہنمیوں کو جنت والوں کے جہنمی ٹھکانے۔ اور یہ خسارہ ہے۔
Top