Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 85
مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّكُنْ لَّهٗ نَصِیْبٌ مِّنْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَّكُنْ لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقِیْتًا
مَنْ : جو يَّشْفَعْ : سفارش کرے شَفَاعَةً : شفارش حَسَنَةً : نیک بات يَّكُنْ لَّهٗ : ہوگا۔ اس کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّنْھَا : اس میں سے وَمَنْ : اور جو يَّشْفَعْ : سفارش کرے شَفَاعَةً : سفارش سَيِّئَةً : بری بات يَّكُنْ لَّهٗ : ہوگا۔ اس کے لیے كِفْلٌ : بوجھ (حصہ) مِّنْھَا : اس سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز مُّقِيْتًا : قدرت رکھنے والا
جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس (کے ثواب) میں حصہ ملے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے تو اس کو اس کے (عذاب) میں سے حصہ ملے گا اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
85۔ (آیت) ” من یشفع شفاعۃ حسنۃ ۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یکن لہ کفل منھا “۔ کفل کا معنی نصیب ہے ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ لوگوں میں باہم صلح کرانا شفاعت حسنہ ہے اور بری شفاعت یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان چغل خوری کرنا اور بعض نے کہا کہ شفاعت حسنہ لوگوں میں خیر کی بات کرنا ہے جو ثواب اور خیر کا ذریعہ بنے اور بری شفاعت یہ ہے کہ غیبت کرنا اور بری باتیں کرنا جو برائی کا باعث بنتا ہے۔ ” کفل منھا “ یعنی ان کے لیے حصہ ہوگا اور مجاہد کا قول ہے کہ بعض لوگوں کی بعض کے ساتھ شفاعت کرنا مراد ہے اور شفاعت کرنے والا شفیع اجر پائے گا ، اگرچہ اس کی شفاعت قبول نہ کی جائے ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جب کوئی شخص کچھ مانگنے یا کسی اور کام کے لیے حاضر ہوتا تو آپ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہو کر ارشاد فرماتے، سفارش کرو ثواب پاؤ گے اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی زبان پر جو الفاظ چاہے گا جاری فرما دے گا ۔ (آیت) ” وکان اللہ علی کل شیء مقیتا “۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے ” مقیتا “ کا ترجمہ ” مقتدر “۔ سے کیا ہے قابو پانے والا ، مجاہد (رح) نے اس کا ترجمہ شاہد ” حاضر وناظر “ سے کیا ہے قتادہ (رح) نے اس کا ترجمہ نگراں سے کیا ہے اور بعض علماء کا قول ہے یعنی ہر جاندار کو روزی دینے والا مقیت ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ” کفا بالمراء اثما ان یضیع من یقوت ویقیت “۔
Top