Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لیے سبب معیشت بنایا ہے مت دو (ہاں) اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان سے معقول باتیں کہتے رہو۔
(تفسیر) 5۔ـ: (آیت)” ولا تؤتوا السفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاما “۔ (ولا تؤتوا السفھاء سے کون مراد ہیں) سفہاء کے متعلق مفسرین رحمہم اللہ کے مختلف اقوال ہیں ، بعض لوگوں نے کہا کہ مراد عورتیں ہیں ، ضحاک (رح) نے فرمایا کہ عورتیں میں بہت زیادہ سفیہ ہیں ۔ مجاہد (رح) نے فرمایا کہ مردون کو اس بات سے روکا گیا ہے کہ وہ اپنے اموال عورتوں کے ہاتھوں میں نہ دیں کیونکہ یہ کم عقل ہیں خواہ وہ تمہاری بیویاں ہوں یا بیٹیاں ہوں یامائیں ہوں ، بعض حضرات نے کہا کہ اس سے مراد اولاد ہے ، زہری رحمۃ اللہ علیہکا قول ہے کہ اپنے چھوٹے بچے کو مال کا مالک نہ بنا کیونکہ وہ بعد میں فساد کا سبب بن جائے گا ، بعض نے کہا کہ اس سے مراد عورتیں اور بچے ہیں، حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے سفیہ عورت یا سفیہ بچہ مراد ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا جو مال اللہ نے تم کو عنایت فرمایا ہے اور ذریعہ معاش بنایا ہے اس پر اپنی عورتوں اور بچوں کو تسلط نہ دو ورنہ وہ تمہارے خلاف کھڑے ہوجائیں گے اور تم ان کے ہاتھوں کو تکتے رہو گے اس لیے اموال کو اپنے پاس قبضے میں رکھو اور اس میں کاروبار کے ذریعے ترقی دو اور خود اہل و عیال کی پرورش اور تربیت میں صرف کرو ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ کلبی (رح) کا بیان ہے کہ جب کسی شخص کو اپنی بیوی کے معاملے میں پتہ چل جائے کہ وہ بیوقوف ہے یا اپنی اولاد کے بارے میں پتہ چل جائے کہ وہ بیوقوف ہے تو ان کو مال نہ دے ورنہ وہ تباہ کردیں گے ،۔ سعید بن جبیر ؓ اور عکرمہ (رح) کا قول ہے کہ یہ حکم مال یتیم کے بارے میں ہے جو اس کے پاس ہے اس کو اس وقت تک مال حوالے نہ کیا جائے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہوجائے یا اضافت اولیاء ہے کیونکہ یہی اولیاء ان کے قوام اور سربراہ ہیں ۔ سفیہ وہ ہے جس کو ولی اس کا مال اس کے حوالے نہ کرے بلکہ وہ کسی کی پرورش کا مستحق ہے ، وہ ہے جو مال کو بےجا خرچ کرنے والا ہو یا دین میں فساد کردینے والا ہو۔ (آیت)” ولا تؤتوا السفھاء “۔ سے مراد جہال میں ان کو حق کی جگہ ذکر کیا ہے وہ جس کی وجہ سے ان کو سربراہ بنایا ہے بعض قراء نے ” فبما “ بغیر الف کے پڑھا ہے اور دوسرے قراء نے ” قیاما “ پڑھا ہے جس کا اصل ” قواما ‘ ہے یہاں واؤ کو یاء سے بدل دیا گیا ہے وہ جن کا کام کا سربراہ یا کام سپرد کیا جاتا ہے ۔ یہاں پر وہ سربراہ مراد ہیں ، جن کی وجہ سے دنیا میں زندگی گزارنے کے اصول معلوم ہوتے ہیں ، ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سربراہ جو حج و جہاد اور نیک اعمال کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور دوزخ سے گردن چھڑاتے ہیں ۔ (آیت)” وارزقوھم فیھا “۔ اور ان سے تم کھاتے ہو، ” واکسوھم “ ان کو تم پہناؤ جن پر تمہارا رزق واجب ہے اور ان کی مدد کرنا واجب ہے ۔ ” فیھا “۔ ارشاد فرمایا ۔ ” منھا “ نہیں کہا کیونکہ اصل رزق کا مالک اللہ ہی ہے لیکن کچھ محدود مدت کے لیے ان کو سربراہ بنایا ہے ۔ (آیت)” وقولوا لھم قولا معروفا “۔ اس مدت جمیلہ میں عطاء (رح) فرماتے ہیں کہ اگر تمہیں ان کے اموال سے نفع حاصل ہوتا ہے تو وہ تمہارے حصہ میں غنیمت ہے، بعض نے کہا کہ وہ دعا ہے ، ابن زید (رح) کا قول ہے کہ اگر تمہارے اوپر ان کا نفقہ واجب نہ ہوتا تو یوں کہتے ” عافانا اللہ وایاک بارک اللہ فیک “ بعض نے کا ہ کہ ان کو ایسا نرم قول کریں کہ بات ان کو بھلی معلوم ہو ۔
Top