Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 31
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا
اِنْ : اگر تَجْتَنِبُوْا : تم بچتے رہو كَبَآئِرَ : بڑے گناہ مَا تُنْهَوْنَ : جو منع کیے گئے عَنْهُ : اس سے نُكَفِّرْ : ہم دور کردیں گے عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے چھوٹے گناہ وَنُدْخِلْكُمْ : اور ہم تمہیں داخل کردیں گے مُّدْخَلًا : مقام كَرِيْمًا : عزت
اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے اجتناب رکھو گے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کردیں گے اور تمہیں عزت کے مکانوں میں داخل کریں گے
(کبیرہ گناہوں اور ان کے مراتب کا بیان) 31۔ (آیت)” ان تجتنبوا کبائر ماتنھون عنہ “۔ ان کبائر کے متعلق آئمہ مفسرین (رح) کا اختلاف ہے کہ کون سے کبائر گناہ ہیں جن کو صغائر کی معافی کے لیے شرط اجتناب ضروری قرار دیا ہے، اس آیت میں وہی کبائر ہیں کہ ان کبائر سے بچو گے تو صغائر معاف ہوں گے ، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کبیرہ گناہ یہ ہیں : اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا ، جان کو قتل کرنا ، اور جھوٹی قسم کھانا، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں کبیرہ گناہوں کے متعلق خبر نہ دوں ، وہ کہنے لگے کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ فرمایا : اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ، والدین کی نافرمانی کرنا ، آپ ﷺ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے پھر اٹھ کر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا سنو ! جھوٹی بات کرنا ، آپ ﷺ نے اس کو بار بار ذکر فرمایا ، ہمارا خیال ہوا کہ اب آپ ﷺ خاموش ہوجائیں ۔ حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ﷺ کون سا گناہ بڑا ہے ؟ فرمایا کہ تم اپنے بیٹے کو قتل کر دو اس ڈر سے کہ وہ تمہارے ساتھ کھانے میں شریک ہوگا ، میں نے کہا پھر کون سا گناہ بڑا ہے ؟ فرمایا کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے ، آپ ﷺ کے اس بیان کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت)” والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر ولا یقتلون النفس التی حرم اللہ الا بالحق ولا یزنون “۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کون سی ہیں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا ، جادو کرنا ، ناحق شخص کو قتل کرنا ، جس کے قتل سے منع کیا گیا ہے ، سود کھانا یتیم کا مال کھانا ، جہاد کے میدان میں پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت لگانا ، عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ بڑے گناہ یہ ہیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اللہ تعالیٰ کی تدبیر سے امن کا ہونا (خوف نہ کھانا) اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا اور ناامید ہونا۔ عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کبیرہ گناہوں میں سے یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو برا بھلا کہے، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ،ﷺ کوئی شخص کیسے اپنے والدین کو گالی دے سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدمی کسی دوسرے کے والدین کو برا بھلا کہتا ہے پھر وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے آدمی کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے ۔ سعید بن جبیر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے کبائر کے متعلق پوچھا کہ کیا وہ سات ہیں ؟ فرمایا وہ تو سات سو کے قریب ہیں مگر وہ استغفار کے ساتھ کبیرہ نہیں رہتے اور اصرار کے بغیر وہ صغیرہ نہیں رہتے، (یعنی اگر وہ صغیرہ باقی رہے تو وہ صغیرہ نہیں رہتا کبیرہ بن جاتا ہے) اور فرمایا جس عمل سے اللہ کی نافرمانی کی جائے وہ کبیرہ ہے ۔ لہذا جو شخص اگر اس طرح کا کوئی عمل کر گزرے تو اس کو اللہ سے استغفار کرنا چاہیے کیونکہ اللہ دوزخ کے اندر اس امت میں سے کسی کو ہمیشہ نہیں رکھے گا سوائے اس کے جو اسلام سے پھر گیا ہو یا کسی فرضیت کا انکار کردیا ہو یا تقدیر کو نہ مانا ہو۔ (گناہ کبیرہ وصغیرہ میں فرق) عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں جو منع فرمایا ہے وہ کبیرہ گناہ ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کا قول ہے ہر وہ گناہ جس پر آگ کی مہر لگائی ہو یا جس پر اللہ کا غضب ہوا یا جس پر اللہ نے لعنت فرمائی یا جس پر عذاب کی وعید سنائی وہ کبیرہ ہے ، ضحاک (رح) فرماتے ہیں جس گناہ پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں وعید فرمائی ہو یا آخرت میں عذاب کی وعید سنائی ہو ۔ حسن بن فضل (رح) کا قول ہے جس کو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے کبیرا یا عظیما فرمایا وہ کبائر ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت)” انہ کان حوبا کبیرا “۔۔۔۔۔۔۔۔ ان قتلھم کان خطئا کبیرا “۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ان الشرک الظلم عظیم “۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ” ان کیدکن عظیم “۔ ۔۔۔۔۔۔۔ سبحانک ھذا بھتان عظیم “۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان ذلک کان عنداللہ عظیما “۔ ان آیات میں کبیرہ گناہ ہی مراد ہے ۔ سفیان ثوری (رح) کا بیان ہے کہ کبائر وہ گناہ ہیں جن میں بندوں اور اللہ کے درمیان مظالم کا ذکر ہے اور صغائر وہ جو بندوں اور اللہ کے درمیان مظالم کا ذکر نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو کریم ہے معاف کرنے والا ہے ۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن عرش کے درمیان سے آواز دینے والا آواز دے گا ، اے امت محمدیہ ! اللہ عزوجل نے تم سب مؤمن ومؤمنات کو معاف کردیا تم اپنے مظالم کو معاف کرو اور اس کی رحمت سے جنت میں داخل ہوجاؤ ، مالک بن مغول کا بیان ہے کبائر اہل بدعت کے گناہ مراد ہیں اور صغائر اہل سنت والجماعت کے گناہ ہیں اور بعض حضرات نے کہا کہ کبائر وہ گناہ جن کو جان کر کیا جائے اور صغائر جن کو بھول کر یا نسیانا کیا جائے یا جن گناہوں پر زبردستی کی گئی ہو ، حدیث النفس (جو بات دل میں آئے اور چلی جائے) بھی اس امت سے معاف ہے ۔ بعض نے کہا کہ کبائر وہ گناہ جو گناہوں کو حلال سمجھ کر کریں اور سیئات (صغائر) وہ گناہ جو استغفار کرنے والے کریں ، پہلے کی مثال ابلیس کا گناہ اور دوسرے کی مثال آدم (علیہ السلام) کی خطاء ، سدی (رح) کا قول ہے کہ کبائر وہ گناہ ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے کرنے سے منع فرمایا ہو اور سیئات وہ گناہ جو اس کے مقدمات اور توابع ہیں جو صالح اور فاسق انسان میں جمع ہوسکتے ہیں، مثلا بدنظری ، کسی کو چھونا ، بوسہ لے لینا اور اس کے مشابہ ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا آنکھیں زنا کرنے والی ، ہاتھ گناہ کرنے والے اور پاؤں زنا کرنے والے اور اس کی تصدیق فرج کرتی ہے یا اس کو جھٹلاتی ہے اور بعض نے کہا کہ کبائر وہ گناہ ہیں جن کو بندے حقیر نہ سمجھیں اور صغائر وہ ہیں جن کو وہ بڑا نہ سمجھتے ہوں اور اس میں واقع ہونے سے ڈرتے ہوں ، حضرت انس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ تم لوگ کچھ اعمال ایسے کرتے ہو جو تمہارے نزدیک بال سے بھی زیادہ باریک ہوتے ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم ان کو تباہ کن گناہوں میں سے شمار کرتے تھے ۔ بعض نے کہا کہ کبائر اللہ کے ساتھ شرک ٹھہرانا اور اس کی طرف لانے والی اشیاء اور شرک کے علاوہ جو گناہ ہیں وہ صغائر ہیں ۔ جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے (آیت)” ان اللہ لایغفران یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء “ ” نکفر عنکم سیئاتکم “ ایک نماز میں سے دوسری نماز تک یا ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک ہم گناہوں کو مٹا دیتے ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا پانچ نمازیں اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کے درمیان گناہوں کا کفارہ ہیں ۔ بشرطیکہ وہ کبائر سے بچتا رہے۔ (آیت)” وندخلکم مدخلا کریما “۔ بمعنی حسنا ہے مراد جنت ہے اہل مدینہ کے قراء نے ” مدخلا “ میم کے فتحہ کے ساتھ اور سورة حج میں بھی اس طرح پڑھا ہے بمعنی داخل ہونے کی جگہ اور باقی قراء نے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں مصدر بمعنی ادخال کے ہوگا ۔
Top