Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ١۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) لَا تَاْكُلُوْٓا : نہ کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بِالْبَاطِلِ : ناحق اِلَّآ : مگر اَنْ تَكُوْنَ : یہ کہ ہو تِجَارَةً : کوئی تجارت عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی خوشی سے مِّنْكُمْ : تم سے َلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفس (ایکدوسرے) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : بہت مہربان
مومنو ! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو (اور اس سے مالی فائدہ ہوجائے تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تم پر مہربان ہے
29۔ (آیت)” یایھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل “۔ باطل سے مراد حرام ہے خواہ وہ سود ہو ، قمار ہو یا کسی سے غصب کیا ہو چوری یا ہو یا خیانت کی ہو ، بعض نے کہا کہ اس سے مراد عقود فاسدہ ہیں ۔ (آیت)” الا تن تکون تجارۃ “۔ اہل کوفہ نے ” تجارۃ “ منصوب پڑھا ہے کان کی خبر ہونے کی وجہ سے ، مطلب ہوگا کہ مگر ہو اموال تجارۃ ، دوسرے قراء نے ” تجارۃ “ رفع کی حالت میں پڑھا ہے معنی ہوگا واقع ہو ان کے درمیان تجارۃ (آیت)” عن تراض منکم “۔ تم میں سے ہر ایک کی اپنی خوشی سے ، بعض نے کہا کہ آپس کی رضا مندی سے ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بیع صرف آپس کی رضا مندی سے ہوتی ہے ۔ نافع حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بیع کرنے والوں میں سے ہر ایک کو اختیار ہوتا ہے جب تک وہ مجلس سے جدا نہ ہوئے ہوں (آیت)” ولا تقتلوا انفسکم “۔ ابو عبیدہ ؓ فرماتے ہیں یعنی تم اس کو ہلاک نہ کرو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت)” ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ “۔ بعض نے کہا کہ اپنے آپ کو باطل مال کھلا کر ہلاکت میں نہ ڈالو ، بعض نے کہا کہ اس سے مراد مسلمان کا اپنے آپ کو قتل کرنا ۔ ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے جس چیز سے دنیا میں اپنے آپ کو قتل کیا قیامت کے دن اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جائے گا ، جندب بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ گزشتہ اقوام میں سے ایک آدمی کے اعضاء پر زخم ہوگیا ، اس سے برداشت نہ ہوسکا اور چھری نکال کر اس نے اپنا ہاتھ خود کاٹ ڈالا ، آخر مرتے دم تک اس کا خون نہ رکا اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے بندے نے جان دینے میں جلدی کی ، میں نے اس پر جنت حرام کردی ، حسن بصری (رح) فرماتے ہیں (آیت)” لا تقتلوا انفسکم “۔ اس سے مراد اپنے بھائیوں کو قتل نہ کرو، یعنی تم میں سے بعض بعض کو قتل نہ کرے ، (آیت)” ان اللہ کان بکم رحیما “۔ حضرت جریر ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الواداع کے موقع پر مجھ سے فرمایا میں لوگوں کو یہ بات سنا دیتاچاہتا ہوں کہ میرے بعد تم لوگ لوٹ کر کافر نہ ہوجانا کہ باہم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو،۔
Top