Tafseer-e-Baghwi - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں
عبادالرحمن کی تفسیر۔ 63۔ وعباد الرحمن ، بندوں میں بعض ایسے ہیں جو دوسروں پر فضیلت رکھتے ہیں ، عبادالرحمن میں اضافت سے مقصود ہے بندوں کی عزت افزائی اور ان کی فضیلت کا اظہار وگرنہ پوری مخلوق اللہ کے بندے ہیں۔ الذین یمشون علی الارض ھونا، اس سے مراد سکینہ وقار، تواضع، نہ اس میں غرور اور نہ ہی اترانا، اور نہ ہی تکبر انہ چال۔ حسن کا قول ہے کہ اس سے مراد علماء اور حکماء ہیں۔ محمد بن الحنفیہ، کا قول ہے کہ اس سے مراد اصحاب وقار ہے اور عفہ ہے وہ لاعاقل نہیں، ھون لغت میں نرمی اور کمزوری کو کہتے ہیں۔ واذاخاطبھم الجاھلون ، یہ سفھائ، جو بے وقوف ہیں جن کو آپ ناپسند سمجھتے ہیں ، قالواسلاما، مجاہد کا قول ہے کہ اس سے مراد سداد یعنی سیدھی بات جس سے ایذاء سے سلامت رہیں اور گناہ سے بھی مقاتل بن حیان کا قول ہے کہ ایسی بات جس کے ذریعے سے وہ گناہوں سے پاک رہیں حسن کا قول ہے کہ اگر کوئی جاہل ان سے جہالت کرتا ہے تو وہ برداشت کرلیتے ہیں جہالت نہیں کرتے، اس سے مراد اسلام معروف نہیں ۔ حسن سے روایت ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ کہتے تم پر سلام۔ ا س پر دلیل اللہ کا فرمان ہے، واذاسمعواللغور اعرضوا عنہ ، ،، ، ابوالعالیہ کا قول ہے کہ یہ حکم جہاد سے پہلے تھا جب آیت جہاد آگئی تو یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو ارشاد فرمایا کہ یہ دن کی صفات میں سے ہے۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی ، والذین یبیتون لربھم سجداوقیاما، یہ ان کی راتوں کی اوصاف ہیں۔
Top