Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 63
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ١ؕ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاِذْ اَخَذْنَا : اور جب ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے اقرار وَرَفَعْنَا : اور ہم نے اٹھایا فَوْقَكُمُ : تمہارے اوپر الطُّوْرَ : کوہ طور خُذُوْا : پکڑو مَا آتَيْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیا ہے بِقُوْةٍ : مضبوطی سے وَاذْكُرُوْا : اور یا درکھو مَا فِیْهِ : جو اس میں لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجاؤ
اور جب ہم نے تم سے عہد (کر) لیا اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا (اور حکم دیا) کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے اس کو زور سے پکڑے رہو اور جو اس میں (لکھا ہے) اسے یاد رکھو تاکہ (عذاب سے) محفوظ رہو
63۔ (آیت)” واذا اخذنا میثاقکم “ تمہارا عہد اے گروہ یہود (آیت)” ورفعنا فوقکم الطور “ یہ سریانی زبان میں پہاڑ کو کہتے ہیں بعض کے قول کے مطابق اور یہ قول مجاہد کا ہے اور کہا گیا ہے کہ دنیا میں کوئی لغت ایسی نہیں جو قرآن میں موجود نہ ہو ، اکثر حضرات کا کہنا ہے کہ قرآن کریم لغت عرب کے بغیر اور کوئی لغت نہیں ہے ۔ ان حضرات کی دلیل (آیت)” قرانا عربیا “ فرمان الہی ہے باقی رہی یہ بات کہ یہ لفظ سریانی یا اس کے مثل اور غیر عربی الفاظ جو قرآن پاک میں موجود ہیں تو ان کا جواب یہ ہے کہ یہ محض اتفاق ہے کہ یہ یا اس قسم کے اور الفاظ سریانی یا اور قسم کے غیر عربی بھی ہیں اور عربی بھی ، تو گویا یہ وفاق بین اللغتین ہوگیا ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فلسطین کے پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کو حکم دیا تو وہ اپنی بنیاد سمیت اکھڑا حتی کہ ان کے سروں پر آکھڑا ہوا اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تورات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمائی پس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ تورات کو قبول کریں اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہوں پس انہوں نے انکار کردیا ، اس سے کہ اسے قبول کریں بوجہ اس گرانباری کے جو ان احکام میں تھی اور شریعت وزنی تھی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو حکم دیا پس اس نے پہاڑ کو ان کے لشکر کے برابر اکھاڑا جو کہ تین میل طول وعرض میں تھا پس اس پہاڑ کو ان کے سروں پر قامت انسانی کے برابر سایہ کی طرح اونچا لا کھڑا کیا اور ان کو کہا اگر تم نے تورات کو (یعنی اس کے احکام) قبول نہ کیا اس پہاڑ کو تمہارے اوپر چھوڑ دوں گا ۔ حضرت عطاء حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کو ان کے سروں پر بلند کیا اور ان کے چہروں کے سامنے آگ کو بھیجا اور ان کے پیچھے بحر شور تھا ، ” خذوا “ اس لیے ہم نے ان کو کہا خذوا پکڑو ” مااتیناکم “ (جو کچھ) ہم نے تم کو دیا ۔ ” بقوۃ “ پوری کوشش اور محنت کے ساتھ اور ہمیشہ کے لیے ” واذکروا “ اور درس دو (مافیہ) اور کہا گیا یاد کرو اور عمل کرو ” لعلکم تتقون “ تاکہ تم دنیا میں ہلاکت سے نجات پاؤ اور آخرت میں عذاب سے بچو ، پس اگر تم نے قبول کرلیا ، ” فبھا “ ورنہ اس پہاڑ سے تمہیں کچل دوں گا اور اس سمندر میں غرق کر دوں گا اور اس آگ میں تمہیں جلادوں پس جب انہوں نے دیکھا ان عذابوں سے بھاگنے کی کوئی صورت نہیں قبول کیا اور سجدہ کیا اور حالت سجدہ میں کن انکھیوں سے پہاڑ کو دیکھتے تھے ، پس یہی طریقہ یہود کے ہاں سنت قرار پایا کہ وہ نصف چہرے پر سجدہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سجدہ کے باعث ہم سے عذاب اٹھایا گیا ۔
Top