Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے، وہ ایمان نہیں لانے کے
(آیت)” ان الذین کفروا “ اس سے مراد مشرکین عرب، کلبی کہتے ہیں اس سے مراد یہود ہیں اور کفر جحود کے معنی میں سے یعنی انکار کرنا اور اس کا اصل معنی ستر ہے اسی اعتبار سے رات کو کافر کا نام دیا گیا کیونکہ وہ اپنی تاریکی سے چیزوں کو چھپا دیتی ہے اور کسان کو کافر کہ وہ دانہ کو مٹی میں چھپاتا ہے ، پس کافر حق کو اپنے انکار کے ساتھ چھپاتا ہے ۔ (اقسام کفر) کفر چار قسم پر ہے (1) کفر انکار (2) کفر جحود (3) کفر عناد (4) کفرنفاق۔ کفر انکار یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بالکل نہیں پہچانتا اور انہ اس کا اعتراف کرتا ہے اور اس کا کفر کرتا ہے ،۔ کفر جحود یہ ہے کہ نہ دل سے اللہ تعالیٰ کو پہچانتا ہے اور نہ زبان سے اقرار کرتا ہے جیسے کفر ابلیس اور کفر یہود ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” فلما جاء ھم مو عرفوا کفروا بہ “۔ کفر العناد یہ کہ اللہ تعالیٰ کو دل سے پہچانے اور زبان سے اقرار کرے مگر اطاعت نہ کرے جیسے ابو طالب کا کفر جبکہ وہ کہتا ہے (ابو طالب کے اشعار کا ترجمہ) اور البتہ تحقیق میں جانتا ہوں کہ دین محمد ﷺ دنیا کے بہترین دینوں میں سے ایک دین ہے ۔ اگر ملامت (لوگوں کی) اور گالی کا خوف نہ ہوتا (اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو مجھے پاتا کہ میں کھلے دل سے اور کھلم کھلا قبول کرلیتا ۔ کفر نفاق یہ کہ زبان سے اقرار کرے اور دل میں عقیدہ نہ ہو یہ چاروں کفر اس بات میں برابر ہیں کہ جو شخص ان کفروں میں سے کسی ایک کفر کو لے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچے گا اللہ تعالیٰ اسے نہیں بخشیں گے ، (آیت)” سواء علیھم “ ان کے نزدیک یہ بات برابر ہے (آیت)” ء انذرتھم “ ان کو آپ خوف دلائیں اور ان کو ڈرائیں ، ” انذار “ کا معنی خوف دلانے اور ڈرانے کے ساتھ آگاہ کرنا لہذا ہر منذر (یعنی انذار کرنے) والا معلم (آگاہ کرنے والا) ہے اور ہر معلم (آگاہ کرنے والا) منذر (ڈرانے والا) نہیں ہے ، ابن عامر اور عاصم اور حمزہ اور کسائی نے ” انذرتھم “ میں دونوں ہمزوں کو ثابت رکھا ہے اور اسی طرح ہر وہ دو ہمزے ثابت رکھتے ہیں جو کلمہ کی ابتداء میں واقع ہوتے ہیں اور باقی حضرات دوسرے ہمزہ کو لین کرتے ہیں ، (یعنی مخرج ہمزہ اور مخرج الف کے مابین پڑھتے ہیں) (ام) استفہام پر حرف عطف ہے (لم) حرف جزم ہے فعل کے سوا کسی کے قریب واقع نہیں ہوتا ، کیونکہ جزم افعال کے ساتھ خاص ہے (اور لم جزم دیتا ہے) ” تنذرھم لا یؤمنون “ یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے حق میں ہے جن پر اللہ تعالیٰ کے علم سابق کے اعتبار سے بدبختی کی بات ثابت ہوچکی ہے اس کے بعد ان کے ترک ایمان کا سبب ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
Top