Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 278
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو ایمان لائے (ایمان والے) اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَذَرُوْا : اور چھوڑ دو مَا : جو بَقِيَ : جو باقی رہ گیا ہے مِنَ : سے الرِّبٰٓوا : سود اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
مومنو ! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو
(تفسیر) 278۔: (یایھا ۔۔۔۔۔۔۔ من الربوا اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور بقیہ چھوڑ دو ) عطاء (رح) ، و عکرمہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیت عباس بن عبدالمطلب اور عثمان بن عفان ؓ کے بارے میں نازل ہوئی کہ انہوں نے کچھ خشک کھجوریں بیع سلم کے طور پر خریدی تھیں جب فصل ٹوٹنے کا وقت آیا تو خشک کھجوروں والے نے کہا کہ اگر آپ لوگ اپنا پورا حق لے لیں گے تو میرے بچوں کی ضرورت کے لیے کچھ نہیں بچے گا اس لیے مناسب ہے کہ آپ آدھا واجب الادا حق اس وقت لے لیجئے اور باقی کے لیے مدت مقرر کیجئے ، میں آپ کو دوگنا کرکے دیدوں گا ، دونوں حضرات اس تجویز رضا مند ہوگئے جب مدت مقروہ پوری ہوگئی اور وقت مقررہ آگیا تو زیادتی کا مطالبہ کیا اس کی اطلاع آپ (علیہ السلام) کو ہوئی تو آپ ﷺ نے دونوں کی ممانعت فرما دی ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ امام سدی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیات عباس اور خالد بن ولید ؓ کے بارے میں نازل ہوئیں کہ یہ دونوں حضرات زمانہ جاہلیت میں قبیلہ بنوثقیف کے بنی عمرو بن عمیر کو سودی قرض دیا کرتا تھا اور یہ دونوں اس کاروبار میں شریک تھے ۔ جب اسلام آیا تو ان کا اس وقت بڑا سودی روپیہ لوگوں پر تھا انہی کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی ، چناچہ حجۃ الوداع میں عرمہ کے دن آپ ﷺ نے اپنے خطبہ میں فرمایا خوب سن لو ، جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں کے نیچے ہے ، جاہلیت کے خون ساقط کردیئے گئے ، اپنے خونوں میں سے سب سے پہلے خون ربیعہ بن حارث کا ساقط کرتا ہوں ، یہ ربیعہ بن حارث کے قبیلہ کے شیر خوار تھے ، بنو ھذیل نے ان کو قتل کردیا، جاہلیت کا سود ساقط کردیا گیا ہے ، سب سے پہلے میں عباس بن عبد المطلب کا سود ساقط کرتا ہوں ، عباس کا سب سود چھوڑ دیا گیا۔ مقاتل ؓ فرماتے ہیں کہ اس آیت کا نزول قبیلہ ثقیف کے چار آدمیوں کے متعلق ہوا ، مسعود عبد یا لیل حبیب اور ربیعہ یہ چاروں عمرو بن عمیر بن عوف ثقفی کے بیٹے تھے کہ یہ لوگ بنو مغیرہ بن عبداللہ بن عمیر بن مخزوم سے قرض لیا کرتے تھے اور یہ اس پر سود لیتے تھے ، جب یہ لوگ طائف میں اسلام لے آئے تو انہوں نے بنو مغیرہ سے سود طلب کیا ، اس پر بنومغیرہ نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم لوگ اسلام میں سود نہیں دیتے ، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے سود کو مٹا دیا ہے پس یہ جھگڑا عتاب بن اسید کے پاس چلا گیا یہ آپ ﷺ کی طرف سے مکہ میں عامل تھے ، حضرت عتاب بن اسید ؓ نے یہ قصہ آپ ﷺ کے پاس بھیج دیا اور ان کے پاس بہت کثیر مال تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔
Top