Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی خدا کی راہ میں ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا
(تفسیر) 190۔: (آیت)” وقاتلوا فی سبیل اللہ “ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں (لڑو) (آیت)” الذین یقاتلونکم “ ابتداء اسلام میں حضور ﷺ کو مشرکین سے قتال کرنے سے روک دیا تھا ، پھر جب آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ان مشرکین سے لڑنے کا اس آیت کے ذریعے سے حکم فرمایا جو آپ ﷺ سے لڑیں۔ حضرت ربیع بن انس ؓ فرماتے ہیں کہ لڑائی سے متعلق یہ پہلی آیت کریمہ ہے جو نازل ہوئی ، پھر اس اس کے بعد تمام مشرکین سے لڑنے کا حکم کا حکم جو مقابلہ میں لڑیں یا نہ لڑیں اس آیت کریمہ کے ساتھ دیا گیا، (آیت)” اقتلوا المشرکین “ تو (آیت)” الذین یقاتلونکم “ والی آیت کریمہ (جس میں یہ شرط لگائی گئی تھی کہ جو مشرک آپ ﷺ سے لڑیں ان سے لڑیں) اس آیت کریمہ (آیت)” اقتلوا المشرکین “ سے منسوخ ہوگئی کہا گیا ہے کہ (آیت)” اقتلوالمشرکین “ (کہ مشرکوں سے لڑو) کی آیت کے ساتھ قریبا ستر آیات منسوخ ہوگئیں ، اور ارشاد ربانی ” ولا تعدوا “ یعنی ان سے لڑائی میں پہل نہ کرو اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت ” الذین یقاتلونکم “ (جس میں مشرکین کی طرف سے قتال (لڑائی) کی شرط لگائی گئی ہے) منسوخ نہیں ہے بلکہ محکم ہے یعنی اس کا مضمون و مفہوم اب بھی زیر عمل ہے پھر (آیت)” الذین یقاتلونکم “ کا معنی ہوگا ان کافروں سے لڑو جو تم سے لڑیں (جن میں لڑنے کی صلاحیت ہو یعنی جو دلیر مرد لڑنے والے مشرک ہیں ان سے لڑو) پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ” ولا تعتدوا “ کا معنی ہوگا کہ عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں راہبوں کے ساتھ نہ لڑو (جو تم سے لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں) اور نہ ان سے لڑو جو تمہاری طرف سلامتی کی بات کریں ، یہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ اور مجاہد (رح) کا قول ہے سلیمان اپنے والد ؓ سے روایت کرتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ جب لشکر بھیجتے تھے تو فرماتے تھے ” اعزوا بسم اللہ وفی سبیل اللہ قاتلوا من کفر باللہ لا تغلوا “ ترجمہ اس عبارت کا (اللہ تعالیٰ کے راستہ میں اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ہر اس شخص سے جو ذات الہی کا انکار کرتا ہے اس کے ساتھ قتال کرو اور دین میں غلو نہ اختیار کرو) اور فرماتے ہیں ” ولا تعتدوا ولا تقتلوا امراۃ اور نہ بچے کو قتل کرو اور نہ بوڑھے کو اور نہ قتل کرو عورت کو ، کلبی ابو صالح (رح) سے روایت کرتے ہیں اور ابوصالح سیدنا حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ صلح حدیبیہ کے بارے میں نازل ہوئی ، اور یہ یوں ہوا کہ بیشک حضور ﷺ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سمیت عمرہ کیلئے نکلے ۔ اور ان کی تعداد چودہ سو تھی ، وہ چلے حتی کہ حدیبیہ کے مقام پر اترے ، پس ان کو مشرکوں نے بیت الحرام (میں داخل ہونے) سے روکا ، حضور ﷺ نے ان سے اس بات پر مصالحت فرمائی کہ اس سال واپس ہوجائیں بریں شرط کہ آیندہ سال مشرکین تین دنوں کے لیے مکہ مکرمہ کو خالی کردیں گے پس آپ ﷺ بیت اللہ شریف کا طواف فرمائیں گے ، جب آیندہ آنے والا سال آیا تو حضور ﷺ نے اور اصحاب رسول اکرم ﷺ نے عمرۃ القضاء کے لیے تیاری فرمائی اور اس بات کا اندیشہ ظاہر فرمایا کہ کہیں قریش مکہ اپنا وعدہ وفا نہ کریں اور بیت الحرام (میں داخلہ) سے ان کو روک دیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اس بات پر اظہار کراہت فرمایا کہ مشرکین مکہ سے حرمت والے مہینے اور بیت الحرام میں لڑیں قتال کریں ، پس اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت)” وقاتلوا فی سبیل اللہ “ یعنی بحالت احرام (اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑو) (آیت)” الذین یقاتلونکم “ قریش کے ساتھ قتال کرو ” ولا تعدوا “ پس بحالت احرام حرم مقدس میں لڑائی کی ابتداء کرو۔ (آیت)” ان اللہ یحب المعتدین “ ۔
Top