Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 188
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بالْبَاطِلِ : ناحق وَتُدْلُوْا : اور (نہ) پہنچاؤ بِهَآ : اس سے اِلَى الْحُكَّامِ : حاکموں تک لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھاؤ فَرِيْقًا : کوئی حصہ مِّنْ : سے اَمْوَالِ : مال النَّاسِ : لوگ بِالْاِثْمِ : گناہ سے وَاَنْتُمْ : اور تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ اس کو (رشوتاً ) حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر نہ کھا جاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو
(تفسیر) 188۔: (آیت)” ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل “ بعض نے کہا کہ یہ آیت امرالقیس بن عباس کندی کے بارے میں نازل ہوئی کہ اس پر ربیعہ بن عبدان حضرمی ؓ نے حضور ﷺ کے پاس زمین کا دعوی کیا ، حضور ﷺ نے حضرمی کو فرمایا تیرے پاس گواہ ہیں ؟ حضرمی نے کہا نہیں تو ، حضور ﷺ نے فرمایا پس تیرے لیے قسم ہوگی (یعنی کندی قسم اٹھائے گا) پس وہ (کندی) قسم اٹھانے چلا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اگر یہ اپنے مال پر قسم اٹھاتا ہے تاکہ ظلما اسے کھائے تو یہ اللہ تعالیٰ کو اس حالت میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے منہ موڑنے والے ہو گے (بوجہ ناراض ہونے کے) پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت)” ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل “ یعنی تمہارا بعض بعض کے مال کو نہ کھائے بغیر اس طریقے کہ جو اللہ تعالیٰ نے جائز فرمایا ہو ، باطل کا اصل معنی وہ شیء جو چلے جانے والی ہے ۔ باطل طریق پر کھانے کی کئی قسمیں ہیں کبھی مال کو غصب اور چھینا جھپٹی کے ساتھ کھایا جاتا ہے کبھی بطریقہ کھیل کے مثلا جوا بازی یا گویے کا گانے پر اجرت لینا وغیرہما اور کبھی بطریق رشوت اور خیانت کے کھایا جاتا ہے ۔ (آیت)” وتدلوا بھا الی الحکام “ ان مالوں کے معاملات جو تمہارے اور مالوں کے مالکوں کے درمیان ہیں حکام کی طرف لے جاؤ اولاء کا اصل معنی کنویں میں ڈول لٹکانے کے ہیں، کہاجاتا ہے اولی دلوہ جب وہ ڈول کو (نیچے) چھوڑ دے اور ” دلاہ یدلوہ “ اس وقت کہا جائے گا جب وہ اس ڈول کو نکالے ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس آیت کا مضمون اس شخص سے متعلق ہے جس پر کسی کا مال واجب ہو اور اس پر گواہ نہ ہوں ، پس وہ اس مال کا انکار کر دے اور اس سلسلہ میں وہ حاکم کے ہاں جھگڑا کرے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اس پر حق واجب ہے اور اس حق واجب ہے اور اس حق کو روکنے کے باعث گنہگار ہوتا ہے ، اس آیت کے بارے میں مجاہد (رح) فرماتے ہیں جب تو ظالم ہو تو پھر جھگڑا نہ کر ، کلبی (رح) فرماتے ہیں مضمون آیت کا یہ ہے کہ جھوٹے گواہ کھڑے کرے اور فرمان الہی (آیت)” وتدلوا “ حرف نہی کے تکرار کے باعث محل جزم میں ہے اور اس کا معنی ہوگا (آیت)” ولا تدلوا بھا الی الحکام ‘ کہ اس معاملہ کو حکام کی طرف مت لے جاؤ اور بعض نے کہا کہ اس کا معنی ہے کہ باطل طریقہ پر مت کھاؤ اور اسے حکام کی طرف منسوب کرو ۔ حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں اپنے بھائی کے مال کا معاملہ حاکم کے پاس مت لے جا حالانکہ تو جانتا ہے کہ اس سلسلہ میں تو ظالم ہے اس لیے کہ حاکم کا فیصلہ حرام کو حلال نہیں کرسکتا ، عالم اسلام کے عظیم قاضی حضرت قاضی شریح (رح) فرمایا کرتے تھے میں تیرے حق میں فیصلہ کرتا ہوں حالانکہ میں تجھے ظالم سمجھتا ہوں لیکن ظاہر گواہوں کی رو سے میرے لیے اور کوئی راستہ اس کے سوا نہیں کہ میں تیرے حق میں فیصلہ کروں اور یہ میرا فیصلہ تیرے لیے حرام کو حلال نہیں کرسکتا۔ حضرت زینب اپنی والدہ محترمہ حضرت سیدہ ام المؤمنین ام سلمہ ؓ سے روایت کرتی ہیں کہ بیشک حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں انسان ہوں اور تم میرے پاس اپنے جھگڑے لاتے ہو اور ہوسکتا ہے کہ کوئی تم میں اپنی دلیل کو بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ تیز لب و لہجہ اختیار کرنے والا ہو پھر میں اس کے (حسن بیان) سننے کے اعتبار سے فیصلہ کر دوں ، لہذا میں جس کسی کے حق میں اس کے بھائی کی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس کو مت لے کیونکہ اس صورت میں میں اس کے لیے آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں (آیت)” لتاکلوا فریقا “ گروہ ” من اموال الناس بالاثم “ ظلم کے ساتھ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں یہاں اثم سے مراد جھوٹی قسم ہے جس کے ذریعے وہ اپنے بھائی کا مال چھین رہا ہے (آیت)” وانتم تعلمون “ (حالانکہ تم جانتے ہو) تم باطل پر ہو۔
Top