Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 180
كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَا١ۖۚ اِ۟لْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَؕ
كُتِبَ عَلَيْكُمْ : فرض کیا گیا تم پر اِذَا : جب حَضَرَ : آئے اَحَدَكُمُ : تمہارا کوئی الْمَوْتُ : موت اِنْ : اگر تَرَكَ : چھوڑا خَيْرَۨا : مال الْوَصِيَّةُ : وصیت لِلْوَالِدَيْنِ : ماں باپ کے لیے وَالْاَقْرَبِيْنَ : اور رشتہ دار بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق حَقًّا : لازم عَلَي : پر الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار
تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ جانے والا ہو تو ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق وصیت کر جائے (خدا سے) ڈرنے والوں پر یہ ایک حق ہے
180۔ (آیت)” کتب علیکم “ یعنی تم پر فرض کیا گیا ۔ (آیت)” اذا حضر احدکم الموت “ موت کے اسباب وآثار اور بیماریوں کی وجہ سے نمایاں ہوجائیں (آیت)” ان ترک خیرا “ مال اس کی مثال قول خداوندی ہے ۔ (آیت)” وما تنفقوا من خیر “ (یہاں بھی خیر سے مراد مال ہے) ” الوصیۃ للوالدین والاقربین “ ابتداء اسلام میں والدین اور قرابت داروں کے حق میں وصیت کرنا فرض تھی اس شخص پر جو اس حال میں فوت ہو کہ اس کا مال ہو ، پھر یہ وصیت آیت میراث کے ذریعہ منسوخ کردی گئی ، عمر بن خارجہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور اقدس ﷺ کی اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے تھے پس آپ ﷺ نے فرمایا (بےشک اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے لہذا اب وارث کے حق میں وصیت نہیں ہے) اس اعتبار سے ایک جماعت کا مؤقف ہے کہ وصیت کا وجوب ان اقارب کے حق میں منسوخ ہوگیا جو وارث بنتے ہیں اور ان کے حق میں وصیت کا وجوب باقی ہے جو وارث بنتے ہیں والدین میں سے اور رشتہ داروں میں سے اور یہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ ، طاؤس (رح) قتادہ (رح) کا قول ہے ۔ حضرت طاؤس (رح) فرماتے ہیں جو شخص کسی قوم کے حق میں وصیت کرتا ہے اور قرابت داروں کو محتاج چھوڑتا ہے ان لوگوں سے وہ وصیت کا واجب ہونا منسوخ ہے۔ البتہ جو لوگ وارث نہ ہوں ان کے حق میں وصیت کرنا مستحب ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی مسلمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کے پاس کوئی ایسی شئی ہو جس کے بارے میں اس کو وصیت کرنا ہو پھر دو راتیں بھی اس حال میں گزارے کہ اس کے سرہانہ لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی (بالمعروف) معروف سے مراد ہے ، وصیت اچھے طریقے سے کرے اور اپنے مال و جائیداد کی تہائی سے زیادہ نہ کرے اور معروف کا معنی یہ بھی ہے کہ ایسا نہ کرے کہ غنی کے حق میں وصیت کر دے اور فقیر کو چھوڑ دے ، ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ وصیت محتاج سے محتاج تر کے لیے ہے ۔ حضرت سعد بن مالک ؓ (جو کہ سعد بن ابی وقاص ؓ کے ساتھ مشہور ہیں) فرماتے ہیں میرے پاس حضور اقدس ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے پورے مال کی وصیت کرتا ہوں ، حضور ﷺ نے فرمایا ایسا نہ کرو میں نے عرض کیا آدھے مال کی وصیت کروں ، فرمایا نہیں ، میں نے عرض کیا ، پھر تہائی مال کی وصیت کروں حضور ﷺ نے فرمایا تہائی کی وصیت کرو اور تہائی زیادہ ہے ، اگر تو اپنے وارثوں کو مال دار چھوڑ جائے یہ بہتر ہے اس سے کہ تو ان کو فقیر محتاج چھوڑ جائے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ، حضور ﷺ کے اس فرمان ” یتکففون الناس “ کا معنی ہے کہ لوگوں سے ہاتھ پھیلا کر صدقہ مانگتے پھریں ۔ ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے عرض کیا میں وصیت کرنا چاہتا ہوں ، حضرت سیدہ طاہرہ عائشہ صدیقہ ؓ نے پوچھا تیرا مال کتنا ہے اس نے عرض کی تین ہزار ، سیدہ طاہر ؓ نے فرمایا تیرے بال بچے کتنے ہیں ؟ اس نے عرض کی چار تو ام المؤمنین سید عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (آیت)” ان ترک خیرا “ اور جو کچھ تیرے پاس ہے یہ معمولی مال ہے اسے اپنے عیال کے لیے رہنے دے (گویا ام المؤمنین ؓ نے خیر سے مال کثیر مراد لیا) حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں (اپنے مال سے) پانچویں حصہ کی وصیت کروں، یہ میرے لیے بہتر ہے اس سے کہ میں چوتھے حصہ کی وصیت کروں اور مال سے میں چوتھے حصہ کی وصیت کروں یہ میرے لیے بہتر ہے اس سے کہ تیسرے حصہ کی وصیت کروں اور جس نے تیسرے حصہ کی وصیت کی اس نے (کچھ) نہ چھوڑا۔ حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں وصیت مال کے چھٹے حصہ کی وصیت کیا کرتے تھے یا چوتھے حصہ کی ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” حقا “ مصدر کی بنیاد پر منصوب ہے (یعنی مفعول مطلق ہے) اور بعض نے کہا کہ مفعول بہ ہونے کی وجہ سے ” منصوب “ ہے عبارت یوں ہوگی ” جعل الوصیۃ حقا “ کہ اللہ تعالیٰ نے وصیت کرنا حق بنادیا ” علی المتقین “ یعنی مؤمنین۔
Top