Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 156
الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ
الَّذِيْنَ : وہ جو اِذَآ : جب اَصَابَتْهُمْ : پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالُوْٓا : وہ کہیں اِنَّا لِلّٰهِ : ہم اللہ کے لیے وَاِنَّآ : اور ہم اِلَيْهِ : اس کی طرف رٰجِعُوْنَ : لوٹنے والے
ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں
156۔ (آیت)” الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا ان اللہ “ (اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں) عبد یعنی بندہ اور غلام ہونے کے لحاظ سے (وانا الیہ راجعون) (اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں) آخرت میں ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں میں نے حضور اقدس ﷺ سے سنا ، آپ تھے کہ بندہ کو جو کوئی مصیبت بھی پہنچے پھر وہ بندہ انا للہ وانا الیہ راجعون “ کہے (اور دعا کرے) اے اللہ ! مجھے میری اس مصیبت میں اجر عطا فرما اور مجھے اس کا نعم البدل عطا کر ، اللہ تعالیٰ اس بندہ کو اس مصیبت میں ضرور اجر عطا فرماتے ہیں اور اس کو اس کا نعم البدل عطا فرماتے ہیں ، حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں جب حضرت ابو سلمہ (ام سلمہ کے خاوند) فوت ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے حوصلہ بخشا اور توفیق دی تو میں نے کہا یا اللہ ! مجھے میری اس مصیبت میں اجر عطا فرما اور مجھے اس کا نعم البدل بخش (اس دعا کی برکت سے) پس اللہ تعالیٰ نے مجھے (ابو سلمہ کی وفات پر صبر کرنے پر) حضور اقدس ﷺ کی صورت میں نعم البدل عنایت فرمایا حضرت سعید بن جبیر (رح) فرماتے ہیں کسی (امت) کو مصیبت میں اتنی (عظیم نعمت نہیں دی گئی) جتنی کچھ کہ اس امت کو عنایت کی گئی ، یعنی مصیبت کے وقت ” انا للہ وانا الیہ راجعون “ کہنا ، اگر یہ (نعمت) کسی کو دی جاتی تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو دی جاتی ، کیا آپ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی گمشدگی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنتے ” یاسفی علی یوسف “ گویا حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اگر (آیت)” انا للہ وانا الیہ راجعون “ کی رہنمائی کی جاتی تو آپ ” یا اسفی “ کی بجائے (آیت)” انا للہ وانا الیہ راجعون “ کہتے ۔
Top